آیت 23
 

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمۡ وَ اَعۡمٰۤی اَبۡصَارَہُمۡ﴿۲۳﴾

۲۳۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے لہٰذا انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ: یہ فساد فی الارض اور قطع رحمی کرنے والے ہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے اپنی رحمت سے دور کیا ہے۔ رحمت خدا کے حصول کے ذرائع ان پر مسدود کر دیے۔ حق کی آواز سن سکتے ہیں نہ صراط مستقیم دیکھ سکتے ہیں۔ اگر کسی کے پاس قوت سماعت نہیں ہے تو منزل تک پہنچنے کے لیے قوت بصارت سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اگر قوت بصارت نہیں ہے تو قوت سماعت سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اگر کسی کے پاس دونوں چیزیں نہ ہوں تو اس کا منزل تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔

آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے:

واستدل بھا علی جواز لعن یزید علیہ من اللہ ما یستحق۔

اس آیت سے یزید پر لعنت کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے۔

پھر لکھتے ہیں:

برزنجی نے الاشاعۃ میں اور ہیثمی نے الصواعق میں لکھا ہے کہ امام احمد سے ان کے بیٹے عبد اللہ نے لعن یزید کے بارے میں پوچھا تو امام احمد نے کہا: اس شخص پر لعنت کیسے نہ کی جائے جس پر اللہ نے اپنی کتاب میں لعنت کی ہے۔ عبد اللہ نے کہا: میں نے قرآن پڑھا ہے مگر اس میں یزید پر لعنت میں نے نہیں دیکھی۔ امام احمد نے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ تُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَکُمۡ۔ یزید نے جو کچھ کیا ہے اس سے بڑھ کر فساد اور قطع رحمی کیا ہو سکتی ہے؟

پھر لکھتے ہیں:

علماء کی ایک جماعت نے یزید پر کفر اور اس پر لعنت کی صراحت کی ہے۔ ان میں الحافظ ناصر السنۃ ابن الجوزی قابل ذکر ہیں۔ ان سے پہلے قاضی ابو یعلی نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔ علامہ تفتازانی نے کہا ہے: ہم اس کے بارے میں، اس کے ایمان کے بارے میں کوئی تردد نہیں کرتے ہیں۔ اللہ کی لعنت ہو اس پر، اس کے انصار و اعوان پر۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے بھی اس پر لعنت کی تصریح کی ہے۔

آگے لکھتے ہیں:

تاریخ ابن الوردی اور کتاب الوافی بالوفیات میں آیا ہے کہ جب اسیران کربلا عراق سے یزید کے پاس شام پہنچ گئے تو یزید باہر نکل آیا تو جیرون کی پہاڑی پر حضرت علی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے بچوں اور خواتین کو اور شہداء کے سروں کو نیزوں پر اُٹھائے ہوئے دیکھا تو اس وقت کوے کے بولنے کی آواز آئی تو یزید نے کہا:

نعب الغراب فقلت قل او لا تقل

فقد اقتضیت من الرسول دیونی

کوا بولا۔ میں نے کہا تم بولو یا نہ بولو

میں نے رسول سے اپنا قرض چکا لیا ہے

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے دن اس کی جد عتبہ، اس کے ماموں عتبہ کے بیٹے وغیرہ کو قتل کیا تو اس قتل کا بدلہ میں نے لے لیا ہے۔ یہ صریح کفر ہے۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو وہ کافر ہے۔ اسی طرح عبد اللّٰہ الزبعری کے زمان جاہلیت کے اشعار کو شاہد مثال بنانے سے بھی اس کا کفر ثابت ہوتا ہے۔ لیت اشیاخی۔۔۔۔ ( روح المعانی ۳: ۲۲۸)

واضح رہے عبد اللّٰہ الزبعری کے اشعار میں یہ شعر ہے:

لعبت ہاشم بالملک فلا

خبر جاء ولا وحی نزل

بنی ہاشم نے حکومت کرنے کے لیے ایک کھیل کھیلا ہے

نہ کوئی خبر آئی نہ ہی کوئی وحی نازل ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ یزید بن معاویہ نے مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تاراج کر کے ہزاروں افراد کو شہید کیا جن میں سات سو مہاجر و انصار کے قاریان قرآن شامل تھے۔ ( الصواعق المحرقۃ : ۲۲۲)

ابن تیمیہ کے شاگرد رشید ابن کثیر البدایۃ و النھایۃ ۸: ۲۲۱ میں لکھتے ہیں:

ولدت الف امرأۃ من اھل المدینۃ بعد وقعۃ الحرۃ من غیر زوج۔

واقعۂ حرہ کے بعد اہل مدینہ کی ایک ہزار عورتوں نے ناجائز بچے جنے بغیر شوہر کے۔

چونکہ یزید کے حکم سے شامی لشکر کے لیے مدینہ تین دن تک حلال قرار دیا گیا تھا۔

یہ واقعہ حرہ کے نام سے مشہور ہے لیکن با این ہمہ بہت سے لوگ اپنی جماعت سے وابستہ لوگوں کے اس سیاہ ترین کارنامے کو ذکر کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔ اس کی جگہ وہ یزید کی حمایت کرنے میں خفت محسوس نہیں کرتے بلکہ پوری جسارت کے ساتھ یہ کہتے ہیں: قتل الحسین بسیف جدہ ۔حسین اپنے نانا کی تلوار سے مارا گیا۔

یزید نانا کی تلوار کا وارث بن گیا۔ نانا کے دین کو سید شباب اہل الجنۃ سے خطرہ لاحق ہوا۔ حسین منی و انا من حسین کی جگہ یزید حامی دین مصطفی بن گیا اور حسین باغی!!! فیا للّٰہ ما احدث الدھر۔ انہی لوگوں پر یہ آیت صادق آتی ہے:

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمۡ وَ اَعۡمٰۤی اَبۡصَارَہُمۡ

یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے لہٰذا انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا۔

اگر ان میں حق کی آواز سننے اور مشاہدۂ حق کی تھوڑی سی بھی صلاحیت ہوتی تو حسین علیہ السلام جیسی روشنی اور یزید (لع) جیسی تاریکی میں امتیاز کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آتی اور حدیث حسین منی و انا من حسین کے مقابلے میں لعن اللہ الراکب و القائد و السائق ( شرح نہج البلاغۃ ابن ابی الحدید ۱۵:۱۷۵) کا سمجھنا دشوار نہ تھا۔


آیت 23