آیت 71
 

یُطَافُ عَلَیۡہِمۡ بِصِحَافٍ مِّنۡ ذَہَبٍ وَّ اَکۡوَابٍ ۚ وَ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡہِ الۡاَنۡفُسُ وَ تَلَذُّ الۡاَعۡیُنُ ۚ وَ اَنۡتُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿ۚ۷۱﴾

۷۱۔ ان کے سامنے سونے کے تھال اور جام پھرائے جائیں گے اور اس میں ہر وہ چیز موجود ہو گی جس کی نفس خواہش کرے اور جس سے نگاہیں لذت حاصل کریں اور تم اس میں ہمیشہ رہوگے۔

تشریح کلمات

بِصِحَافٍ:

( ص ح ف ) صحاف برتن کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ یُطَافُ عَلَیۡہِمۡ بِصِحَافٍ مِّنۡ ذَہَبٍ: سونے کے برتنوں میں کھانے پینے کی چیزیں پھرائی جاتی ہوں گی۔ یُطَافُ عَلَیۡہِمۡ ان کی خدمت میں پھرائے جائیں گے کا مطلب یہ ہوا جس چیز کی وہ خواہش کریں گے یا جو چیزیں کھانے اور پینے کا ارادہ کریں گے وہ ارادہ نافذ ہو گا اوروہ چیزیں ان کے سامنے پھرائی جائیں گی۔

۲۔ وَ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡہِ الۡاَنۡفُسُ وَ تَلَذُّ الۡاَعۡیُنُ: جنت کی نعمتوں کی ایک ایسی جامع تعریف اور تعبیر آ گئی جو اس دنیا کے انسانوں کے لیے قابل فہم ہے۔

جس طرح ایک جنین کے لیے عالم دنیا اور اس کی چیزیں قابل فہم نہیں ہیں اسی طرح دنیا والوں کے لیے عالم آخرت اور اس کی چیزیں قابل فہم نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ دنیا کی چیزوں کا ذکر فرماتا ہے جنت میں باغات، نہریں، حوریں اور میوے ہوں گے کیونکہ عالم دنیا کا انسان صرف انہی چیزوں کو سمجھ سکتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے اللہ اپنی قدرت کو ہاتھ سے تعبیر فرماتا ہے کیونکہ انسان کے لیے مانوس تعبیر یہی ہے۔

اس آیت میں جنت کی نعمتوں کی ایسی جامع تعبیر اختیار فرمائی جو محسوس فہم اہل دنیا کے لیے قابل فہم ہے۔

مَا تَشۡتَہِیۡہِ الۡاَنۡفُسُ: جس جس چیز کی نفس خواہش کرے، ارادہ کرے، جو بھی انسانی نفس کی خواہش اور ارادے کے دائرے میں آ سکے اس کے لیے وہ موجود ہو گی خواہ اس کا تعلق لذتوں سے ہو یا آوازوں سے یا خوشبووں سے یا دیگر محسوسات سے ہو یا ان کی کیفیت سے ہو۔ اگر یہ خواہش ہو کہ جنت کی لذتوں میں تکرار نہ ہو ہر مرتبہ نئی لذت ہو تو بھی میسر ہوں گی۔

وَ تَلَذُّ الۡاَعۡیُنُ اور جس جس چیز سے نگاہیں لذت حاصل کریں۔ اس میں بصری نعمتوں کا ذکر آیا ہے۔ ان میں سرفہرست جمالیات ہیں۔ خوبصورت چہرے، حسین مناظر، زیب و زینت کی چیزیں۔ ان دو لفظوں میں قابل تصور تمام نعمتوں کی ایک جامع تعریف آ گئی تاہم عالم جنت میں موجود نعمتیں اور انسانی خواہشات اور اس عالم کے مطابق جمالیات ہمارے لیے قابل فہم نہیں ہیں۔

مثلاً ایک بوڑھی عورت سے، جس نے عالم تمدن کا چہرہ دیکھا ہی نہ ہو، کہا جائے آپ کا بیٹا شہر میں کمپیوٹر سیکھ رہا ہے اس عورت کے لیے کمپیوٹر قابل فہم نہیں ہو گا تاہم اسے سمجھانے کے لیے اس عورت کے گرد و پیش موجود چیزوں سے استفادہ کیا جائے گا۔ اس طرح خواہشات اور لذت کی تعبیر انسان کو کسی حد تک مطلب کے نزدیک کر دیتی ہے۔

۳۔ اَنۡتُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ: جن نعمتوں کا ذکر ہے ان کے بارے میں اس بات کا اندیشہ بھی نہیں ہے کہ کسی وقت ان نعمتوں سے محروم ہو جائیں گے یا یہ نعمتیں ختم ہو جائیں گی بلکہ ان میں دوام ہے۔ الی الابد ان نعمتوں میں نازاں رہنا ہے۔


آیت 71