آیت 49
 

وَ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَ السّٰحِرُ ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنۡدَکَ ۚ اِنَّنَا لَمُہۡتَدُوۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔اور(عذاب دیکھ کر)کہنے لگے:اے جادوگر! تیرے رب نے تیرے نزدیک تجھ سے جو عہد کر رکھا ہے اس کے مطابق ہمارے لیے دعا کر، ہم یقینا ہدایت یافتہ ہو جائیں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰۤاَیُّہَ السّٰحِرُ: حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایک طرف ساحر پکارنا اور دوسری طرف آئی ہوئی مصیبت کو ٹالنے کے لیے اللہ سے دعا کے لیے کہنا بظاہر تضاد لگتا ہے۔ ایک جواب یہ دیا گیا ہے مصری معاشرے میں ساحر کو بہت بڑا عالم سمجھا جاتا اور ساحروں کا معاشرے میں ایک مقام تھا جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طبیبوں اور عربوں میں فصاحت و بلاغت رکھنے والوں کو حاصل تھا۔ چنانچہ فرمایا:

وَ ابۡعَثۡ فِی الۡمَدَآئِنِ حٰشِرِیۡنَ ﴿﴾یَاۡتُوۡکَ بِکُلِّ سَحَّارٍ عَلِیۡمٍ﴿﴾ (۲۶ شعراء: ۳۶۔ ۳۷)

اور شہروں میں ہرکارے بھیج دو کہ وہ تمام ماہر جادوگروں کو تمہارے پاس لے آئیں۔

ممکن ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزوں کی کثرت کی وجہ سے وہ دل میں موسیٰ علیہ السلام کو برحق رسول سمجھتے ہوں مگر ان پر ایمان نہیں لاتے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے وہ سحر اور معجزے کو دو چیزیں نہ سمجھتے ہوں اور یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ موسیٰ علیہ السلام اللہ کی طرف سے بہت بڑے ساحر ہیں۔ اسی لیے دعا کی درخواست کی ہے۔ پہلے وہ ساحر کو رسول نہیں مانتے تھے چونکہ دوسرے ساحرین اللہ کے رسول نہیں تھے۔

۲۔ بِمَا عَہِدَ عِنۡدَکَ: اللہ کا نمائندہ ہونے کے اعتبار سے تمہاری دعا قبول ہونے کا وعدہ ہے اس کے مطابق دعا کرو۔ اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دل میں رسول برحق سمجھتے تھے۔


آیت 49