آیت 64
 

اَللّٰہُ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ قَرَارًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً وَّ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ وَ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ ۚۖ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار اور آسمان کو عمارت بنایا اور اسی نے تمہاری صورت بنائی تو بہترین صورت بنائی اور تمہیں پاکیزہ رزق دیا، یہی اللہ تمہارا رب ہے، پس بابرکت ہے وہ اللہ جو عالمین کا رب ہے۔

تفسیر آیات

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور تدبیریت پر دلالت کرنے والے واضح ترین دلائل کا ذکر ہے:

۱۔ اَللّٰہُ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ قَرَارًا: کرۂ ارض اللہ نے اس طرح خلق فرمایا کہ یہاں حیات کے لیے ضروری چیزیں مہیا ہو سکیں اور جائے قرار ثابت ہو۔ زندگی کے لوازم کی فراہمی میں کرۂ ارض کی تخلیق کا انداز اور نوعیت ہی بنیاد ہے۔ اسے خلق فرماتے ہوئے اس کے حجم کو ایسا رکھا کہ یہاں زندگی کا ماحول سازگار ہو چونکہ کرۂ ارض موجودہ حجم سے بڑا یا چھوٹا ہونے کی صورت میں یہاں زندگی ممکن نہ تھی۔ اس کا سورج سے فاصلہ، اس کی گردش کی مختلف قسمیں، سب کو یہاں زندگی کے لیے سازگار بنایا۔ اگر زمین کی محوری اور سورج کے گرد گردش، موجودہ گردش کی رفتار سے تیز تر ہوتی تو یہاں زندگی ممکن نہ تھی۔ اگر اس کی محوری گردش نہ ہوتی تو سمندروں کا وجود ممکن نہ تھا اور موسم بھی مختلف نہ ہوتے۔ اگر آکسیجن کا موجودہ تناسب ۲۱ فیصد سے بڑھ کر ۵۰ فیصد ہو جاتا تو یہاں آگ ہی آگ ہوتی اور اگر ۲۱ فیصد سے گھٹ کر دس فیصد رہ جاتا تو حرارت کی کمی کی وجہ سے زندگی ممکن نہ ہوتی۔ اس طرح کی ہزاروں باتیں اس زمین کے جائے قرار ہونے کے لیے لازمی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے فراہم فرمائی ہیں۔ اسی لیے ہم نے تکراراً یہ بات واضح کی کہ تخلیق اور تدبیر ناقابل تفریق ہے۔

۲۔ وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً: اور آسمان کو ایسی عمارت بنایا جو چھت کا کام دے کہ آسمانوں سے آنے والے حیات بخش شعاعوں کو آنے دے اور حیات کے منافی اور مضر چیزوں، جیسے قاتل شعاعوں اور پتھروں کو نہ آنے دے۔

۳۔ وَّ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ: تمہاری صورت بنائی تو بہترین صورت گری فرمائی۔ انسان کو اللہ تعالیٰ جس انداز میں خلق فرمایا اس پر خود قدرت کو ناز ہے فرمایا: فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ نیز فرمایا: لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ۔ (۹۵ تین: ۴) بتحقیق ہم نے انسان کو بہترین اعتدال میں پیدا کیا۔ چنانچہ انسان کی ساخت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے اس کی قامت، دونوں ہاتھ، اس کی انگلیاں، انگلیوں کی ساخت کا انداز، دونوں پاؤں، گردن و دیگر اعضاء و جوارح کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ اس انسان کے لیے بہت سی چیزوں کو تسخیر کرنا ممکن ہو سکے:

وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیۡنِ وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ ﴿۱۰﴾ (۹۰ بلد:۹۔۱۰)

کیا ہم نے اس کے لیے نہیں بنائیں دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ؟

۴۔ وَ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ: اور تمہیں پاکیزہ رزق دیا۔ پاکیزہ، گوارا، لذیذ اور جسم و جان سے ہم آہنگ رزق، مختلف رنگوں، خصلتوں اور لذتوں پر مشتمل عنایت فرمایا۔ ان ارزاق کی فراہمی میں صرف انسان کو زندہ رکھنا نظر میں نہیں رکھا، ورنہ اس کے لیے گندم یا جو کا دانہ کافی تھا بلکہ انسانی ذوق اور خواہشات کا بھی لحاظ رکھا ہے۔

۵۔ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ: یہ ہے تمہارا رب۔ جس نے زمین و آسمان کی تخلیق جو کا انداز اختیار کیا تمہاری صورت گری کے لیے جو طریقہ اپنایا اور تمہاری زندگی برقرار رکھنے اور ذوق کی تسکین کے لیے روزی فراہم کی وہ تمہارا رب ہے۔ اسی کی بندگی کرو۔

۶۔ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ: ان بتوں میں کیا برکت ہو گی، جو نہ صرف عالمین کے رب نہیں بلکہ اپنی ذات کے بھی رب نہیں ہیں۔


آیت 64