آیت 34
 

وَ لَقَدۡ جَآءَکُمۡ یُوۡسُفُ مِنۡ قَبۡلُ بِالۡبَیِّنٰتِ فَمَا زِلۡتُمۡ فِیۡ شَکٍّ مِّمَّا جَآءَکُمۡ بِہٖ ؕ حَتّٰۤی اِذَا ہَلَکَ قُلۡتُمۡ لَنۡ یَّبۡعَثَ اللّٰہُ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ رَسُوۡلًا ؕ کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنۡ ہُوَ مُسۡرِفٌ مُّرۡتَابُۨ ﴿ۚۖ۳۴﴾

۳۴۔ اور بتحقیق اس سے پہلے یوسف واضح دلائل کے ساتھ تمہارے پاس آئے مگر تمہیں اس چیز میں شک ہی رہا جو وہ تمہارے پاس لائے تھے یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہوا تو تم کہنے لگے: ان کے بعد اللہ کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کرے گا اس طرح اللہ ان لوگوں کو گمراہ کر دیتا ہے جو تجاوز کرنے والے، شک کرنے والے ہوتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ جَآءَکُمۡ یُوۡسُفُ مِنۡ قَبۡلُ: مومن آل فرعون کی ناصحانہ گفتگو جاری ہے۔ فرمایا: موسیٰ سے پہلے تمہارے پاس یوسف واضح دلائل کے ساتھ آئے تھے۔

یہاں ایک سوال ذہنوں میں آتا ہے کہ کیا حضرت یوسف علیہ السلام قوم مصر کی طرف ایک نبی مرسل کے طور پر مبعوث ہوئے تھے؟ اگر ایسا ہے تو آپ علیہ السلام نے مصر کے بادشاہ سے صرف خزائن الارض کی وزارت کیوں مانگی؟ اجۡعَلۡنِیۡ عَلٰی خَزَآئِنِ الۡاَرۡضِ۔۔۔۔ (۱۲ یوسف: ۵۵)

اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے چونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کی نبوت کی نوعیت معلوم نہیں ہے۔ ممکن ہے آپ علیہ السلام کو دعوت کا حکم نہ تھا صرف عادلانہ طور پر حکومت کرنے، عدل و انصاف متعارف کرانے کا حکم تھا اور آل ابراہیم کا تعارف اور آزمائش مقصود تھی۔ حکمت الٰہی کا تقاضا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق سے ہجرت کر کے کنعان کو اپنا مستقر بنائیں اور ایک فرزند کو حجاز کی خشک وادی میں آباد فرمائیں۔ آپ علیہ السلام کی آل میں سے چند ہستیاں مصر میں آباد ہوں۔ مصر سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک دعوت اور تحریک کا آغاز کرنا تھا۔ اس کے لیے اس تحریک سے پہلے آل ابراہیم کو ان مراحل سے گزارنا مقصود ہو سکتا ہے۔

۲۔ بِالۡبَیِّنٰتِ: حضرت یوسف علیہ السلام واضح دلائل لے کر آئے تھے۔ یہاں بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ نے کوئی دعوت پیش نہیں کرنا تھی اور کوئی توحیدی تحریک نہیں چلانی تھی تو بینات کی کیا ضرورت تھی؟ پھر وہ بینات کیا ہیں؟

جواب یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جس مقصد کے لیے نبی بنایا گیا تھا اس کے لیے بھی بینات کی ضرورت تھی۔ مثلاً اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے تمہید کے طور پر بھیجا گیا ہو تو بھی آپ علیہ السلام کی شخصیت کی طرف متوجہ ہونے کے لیے بینات لازم تھیں۔

رہا یہ سوال کہ وہ بینات کیا تھیں؟ جواب یہ ہے کہ وہ بینات یہ ہیں:

i۔ آپ علیہ السلام کی پاک دامنی۔

ii۔ بچے کی آپ علیہ السلام کے حق میں گواہی۔

iii۔ خواب کی سچی تعبیر۔

iv۔ مصری خواتین کا اعتراف۔

v۔ ایک عادلانہ حکومت کا قیام۔

vi۔ ملک کو مہلک قحط سے بچانا۔

۳۔ فَمَا زِلۡتُمۡ فِیۡ شَکٍّ: حضرت یوسف علیہ السلام نے کسی قسم کی توحیدی تحریک نہیں چلائی تھی اس لیے ان کی تکذیب و تردید کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ صرف اس آیت میں شک کا ذکر ملتا ہے۔ اس شک کی تفصیل نہیں ملتی۔ قرآن نے صرف اتنا فرمایا: یوسف علیہ السلام جو کچھ تمہارے پاس لائے تھے اس میں ان کو شک رہا۔ وہ کیا چیز تھی جو حضرت یوسف علیہ السلام لے کر آئے تھے؟

حضرت یوسف علیہ السلام نے جوکچھ پیش کیا وہ عدل و انصاف کی ایک لازوال مثال تھی۔ اس میں شک کا مطلب کیا یہ ہے کہ وہ پیغمبر تھے یا نہ تھے؟ ظاہر آیت سے یہی مفہوم ہوتا ہے۔ کیا ان کی زندگی میں ان کی رسالت پر شک کیا؟ یا زندگی کے بعد انہیں رسول تسلیم کیا؟ ایک امکانی صورت یہ ہے کہ حضرت علیہ السلام کی نبوت پر شک کرنے والوں سے مراد صرف بنی اسرائیل ہو سکتے ہیں اور حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات کے بعد بنی اسرائیل نے ان کی رسالت کو قبول کیا ہو، ورنہ مصر والوں نے کسی کی رسالت کو کبھی قبول کیا ہو، اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا بلکہ فراعنہ کے زمانے کے لوگوں کی باتوں سے اس کے برعکس ثابت ہوتا ہے لیکن سیاق آیت اس توجیہ کے مطابق نہیں ہے چونکہ بظاہر وَ لَقَدۡ جَآءَکُمۡ یُوۡسُفُ کے مخاطب مصری ہیں۔ اسی طرح قُلۡتُمۡ ہے۔

۴۔ حَتّٰۤی اِذَا ہَلَکَ قُلۡتُمۡ لَنۡ یَّبۡعَثَ اللّٰہُ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ رَسُوۡلًا: اس کا ظاہری معنی یہ بنتا ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کا وصال ہوا تو انہیں رسول تسلیم کیا۔ ساتھ یہ عقیدہ بھی قائم کیا کہ ان کے بعد کوئی رسل نہیں آئے گا۔ ممکن ہے یہ عقیدہ رکھنے والے بنی اسرائیل ہوں۔


آیت 34