آیات 69 - 70
 

مَا کَانَ لِیَ مِنۡ عِلۡمٍۭ بِالۡمَلَاِ الۡاَعۡلٰۤی اِذۡ یَخۡتَصِمُوۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔ مجھے عالم بالا کا علم نہ تھا جب وہ (فرشتے) بحث کر رہے تھے۔

اِنۡ یُّوۡحٰۤی اِلَیَّ اِلَّاۤ اَنَّمَاۤ اَنَا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ﴿۷۰﴾

۷۰۔ میری طرف وحی محض اس لیے ہوتی ہے کہ میں نمایاں طور پر فقط تنبیہ کرنے والا ہوں۔

تفسیر آیات

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے بیان ہو رہا ہے کہ میرا واحد ذریعہ علم، وحی ہے۔ اگر وحی نہ ہوتی تو مجھے عالم بالا کا از خود علم نہ ہوتا کہ وہاں کس بات پر بحث ہو رہی ہے۔ اس بحث و جھگڑے سے مراد فرشتوں کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ بحث ہو سکتی ہے، جب اللہ تعالیٰ نے زمین پر خلیفہ بنانے کا ذکر کیا تو فرشتوں نے سوال اٹھایا تھا یا اس جھگڑے کا ذکر ہو کہ جو ابلیس نے آدم علیہم السلام کو سجدہ کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے انکار کے ساتھ کیا تھا جس کا اگلی آیات میں ذکر آ رہا ہے۔

۲۔ اِنۡ یُّوۡحٰۤی: میری طرف صرف وہ وحی ہوتی ہے جو انذار سے مربوط ہے۔ یعنی کافروں کی صرف تنبیہ ہوتی ہے۔ بشارت کا ان کافروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


آیات 69 - 70