آیت 44
 

وَ خُذۡ بِیَدِکَ ضِغۡثًا فَاضۡرِبۡ بِّہٖ وَ لَا تَحۡنَثۡ ؕ اِنَّا وَجَدۡنٰہُ صَابِرًا ؕ نِعۡمَ الۡعَبۡدُ ؕ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ﴿۴۴﴾

۴۴۔ (ہم نے کہا) اپنے ہاتھ میں ایک گچھا تھام لیں اور اسی سے ماریں اور قسم نہ توڑیں، ہم نے انہیں صابر پایا، وہ بہترین بندے تھے، بے شک وہ (اپنے رب کی طرف) رجوع کرنے والے تھے۔

تشریح کلمات

ضِغۡثًا:

( ض غ ث ) ضغث خشک گھاس یا شاخیں جو انسان کی مٹھی میں آ جائیں۔

تَحۡنَثۡ:

( ح ن ث ) الحنث گناہ، نافرمانی، قسم توڑنے کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ خُذۡ بِیَدِکَ ضِغۡثًا: روایت کے مطابق حضرت ایوب علیہ السلام اپنی زوجہ کے کسی عمل پر برہم ہوئے اور قسم کھائی کہ اسے سو کوڑے ماریں گے۔ بعد میں جب وہ بے گناہ ثابت ہوئی تو پریشان ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہوا: سو تنکوں والا ایک جھاڑو اسے مارو کہ تمہاری قسم بھی پوری ہو جائے اور اسے تکلیف بھی نہ ہو۔

یہ حکم اسلامی حدود و تعزیرات میں نافذ ہو گا جہاں حد و تعزیر معاف ہونے کا مستحق ہو۔ جیسے مریض اور جہاں معاف نہیں ہو سکتا وہاں یہ حکم نہیں ہوگا۔ شیخ طوسی فرماتے ہیں یہ مسئلہ اختلافی ہے۔

۲۔ اِنَّا وَجَدۡنٰہُ صَابِرًا: ہم نے ایوب علیہ السلام کو صابر پایا۔ حوصلہ شکن حالات میں بھی استقامت دکھائی اور زبان پر حرف شکایت نہیں لائے۔ انتہائی سنگین حالات میں بھی اللہ کے ساتھ اپنی امیدوں کا رشتہ نہیں توڑا۔

۳۔ نِعۡمَ الۡعَبۡدُ: بندگی کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ عبودیت کی تابناک مثال پیش کی۔

۴۔ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ: اس کا راز ہر مشکل میں اپنے رَب کی طرف رجوع کرنے میں مضمر تھا۔ اَوَّابٌ بار بار رجوع کرنے والا۔ یہ لفظ اوب سے صیغہ مبالغہ ہے۔ اللہ کی طرف رجوع کرنے والے آخر میں ہر غیر اللہ کی طرف رجوع کرنے سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔


آیت 44