آیت 35
 

قَالَ رَبِّ اغۡفِرۡ لِیۡ وَ ہَبۡ لِیۡ مُلۡکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ ﴿۳۵﴾

۳۵۔ کہا: میرے رب! مجھے معاف کر دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا کر جو میرے بعد کسی کے شایان شان نہ ہو، یقینا تو بڑا عطا کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالَ رَبِّ اغۡفِرۡ لِیۡ: اس جملے کا تعلق اس آزمائش سے ہے جو ایک جسد کے ذریعے ہوئی تھی اور اسی سلسلے کی معذرت اور مغفرت طلبی ہے۔

۲۔ وَ ہَبۡ لِیۡ مُلۡکًا: یہاں سوال اٹھایا گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بخل کا مظاہر کیا ہے کہ میرے بعد حکومت کسی کے لیے شایان شان نہ ہو۔

جواب: ممکن ہے جب اپنی اولاد سے نا امید ہو گئے تو یہ دعا کی ہو کہ جب میری اولاد میں میرے پائے کا حکومت کرنے والا کوئی نہ ہو گا تو اے اللہ مجھے ہی ایسی حکومت عنایت فرما جو میرے بعد میری اولاد میں سے کسی کے شایان شان نہ ہو۔

میری نظرمیں صحیح جواب وہ ہے جو حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے علی بن یقطین کے جواب میں فرمایا:

الملک ملکان ملک ماخوذ بالغلبۃ والجور و اجبار الناس و ملک ماخوذ من قبل اللہ تعالی ذکرہ کملک آل ابراھیم۔۔۔ الی آخر الروایۃ۔ ( القصص للجزائری ص ۳۶۶)

حکومت کی دو قسمیں ہیں: ایک حکومت غلبہ اور بالادستی اور لوگوں کو قابو کر کے حاصل کی جاتی ہے اور ایک حکومت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے جیسے آل ابراہیم کی حکومت۔۔۔ الیٰ آخر۔

اس اعتبار سے سلیمان علیہ السلام نے اس قسم کی حکومت اپنی حد تک محدود رکھنے کی درخواست کی جو بالادستی اور قابو کرنے کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ نے انسانوں کے علاوہ جنات کو بھی قابو کر کے حکومت قائم کی تھی۔ آپ کی حکومت کی نوعیت منحصر تھی۔ دعا اس نوعیت کی حکومت کے لیے ہے۔

ورنہ حکومت الٰہی ہو اور دلوں پر حکومت کرنا ہو تو انبیاء علیہم السلام اس حکومت کی اپنی اولاد کے لیے اللہ سے درخواست کرتے ہیں: قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۱۲۴) ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لیے امامت کی درخواست کی تھی۔


آیت 35