آیات 31 - 33
 

اِذۡ عُرِضَ عَلَیۡہِ بِالۡعَشِیِّ الصّٰفِنٰتُ الۡجِیَادُ ﴿ۙ۳۱﴾

۳۱۔ جب شام کے وقت انہیں عمدہ تیز رفتار گھوڑے پیش کیے گئے،

فَقَالَ اِنِّیۡۤ اَحۡبَبۡتُ حُبَّ الۡخَیۡرِ عَنۡ ذِکۡرِ رَبِّیۡ ۚ حَتّٰی تَوَارَتۡ بِالۡحِجَابِ ﴿ٝ۳۲﴾

۳۲۔ تو انہوں نے کہا: میں نے(گھوڑوں کے ساتھ ایسے) محبت کی جیسے خیر سے محبت کی جاتی ہے اور اپنے رب کے ذکر سے غافل ہو گیا یہاں تک کہ پردے میں چھپ گیا۔

رُدُّوۡہَا عَلَیَّ ؕ فَطَفِقَ مَسۡحًۢا بِالسُّوۡقِ وَ الۡاَعۡنَاقِ﴿۳۳﴾

۳۳۔ (بولے) انہیں میرے پاس واپس لے آؤ، پھر ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔

تشریح کلمات

الصّٰفِنٰتُ:

( ص ف ن ) گھوڑے کا تین پاؤں پر کھڑے ہو کر چوتھے پاؤں کو اس طرح اٹھانا کہ اس کا اگلا حصہ زمین پر لگا رہے۔ عمدہ گھوڑے کی علامت۔

الۡجِیَادُ:

( ج و د ) تیز رفتار گھوڑے۔

تفسیر آیات

۱۔ سیاق آیات کے قریب تر معنی یہ ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو بندگان خدا میں ممتاز مقام حاصل تھاکیونکہ وہ اللہ کی طرف خوب رجوع کر نے والے تھے۔

۲۔ اِذۡ عُرِضَ عَلَیۡہِ: جب سدھائے ہوئے تیز رفتار گھوڑے پیش کیے گئے جو راہ خدا میں جہاد کے لیے آمادہ تھے۔

۳۔ بِالۡعَشِیِّ: شام کے وقت ان گھوڑوں کو پیش کیا گیا چونکہ شام کے وقت جب گھوڑے اور دیگر حیوانات چراگاہ سے چرا کر واپس لائے جاتے ہیں تو اس وقت ان کا معائنہ کیا جاتا ہے کہ سب گھوڑے واپس آ گئے۔

۴۔ فَقَالَ اِنِّیۡۤ اَحۡبَبۡتُ: حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: میں نے ان گھوڑوں کے ساتھ ایسی محبت کی جیسے عمدہ مال کے ساتھ کی جاتی ہے۔ حُبَّ الۡخَیۡرِ میں الۡخَیۡرِ سے مراد مال ہو سکتا ہے جیسے اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَۨا ۚۖ الۡوَصِیَّۃُ۔۔۔۔ ( ۲ بقرۃ:۱۸۰) میں خَیۡرِ سے مراد مال ہے۔

۵۔ عَنۡ ذِکۡرِ رَبِّیۡ: اس جملے کا ایک ترجمہ وہی ہے جو متن میں ذکر ہوا ہے۔ عَنۡ بمعنی اعراض، منہ موڑنے، غفلت کرنے کے معنوں میں ہے۔ دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے: بہ سبب ذکر رَبْ ان گھوڑوں سے محبت کی۔ اس صورت میں عَنۡ سبب و علت بیان کر نے کے لیے ہے۔ یعنی حبا ناشئاً عن ذکر ربی۔

۶۔ حَتّٰى تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ: یہاں تک پردے میں چھپ گیا۔ یعنی جب گھوڑوں کی دوڑ کرائی اور وہ نگاہ سے دور ہو گئے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا کہ گھوڑے ان کے پاس واپس لائے جائیں۔ ممکن ہے توارت الصافنات بالحجاب مراد ہو۔ چنانچہ رُدُّوْہَا عَلَيَّ اس پر قرینہ ہے۔ اکثر مفسرین توارت الشمس مراد لیتے ہیں جب کہ شمس پہلے مذکور نہیں ہے۔ صرف العشی کو قرینہ قرار دیتے ہیں جو واضح نہیں ہے۔

۷۔ فَطَفِقَ مَسۡحًۢا بِالسُّوۡقِ وَ الۡاَعۡنَاقِ: پھر از روئے محبت ان گھوڑوں کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ انبیاء علیہم السلام دنیا کی عمدہ چیزوں سے اگر محبت کرتے ہیں تو محض برائے خدا محبت کرتے ہیں۔ عمدہ گھوڑوں پر بھی رضائے الٰہی کی خواہش کے بغیر فریفتہ نہیں ہوتے۔

اکثر مفسرین ان آیات سے اس طرح مطلب اخذ کرتے ہیں:

حضرت سلیمان علیہ السلام گھوڑوں کے معائنے میں اس قدر منہمک ہو گئے کہ نماز عصر رہ گئی۔ یہاں تک کہ سورج چھپ گیا۔ اس پر انہوں نے حکم دیا ان گھوڑوں کو واپس لایاجائے۔ جب واپس لائے گئے تو تلوار سے ان گھوڑوں کی گردنیں اور پنڈلیوں پر مارنے لگ گئے۔ یعنی ان گھوڑوں کو تلف کر دیا گیا چونکہ یہ ذکر خدا سے غافل ہو نے کے سبب بنے۔

اس تفسیر کے لیے آیت میں مطلوبہ قرائن و شواہد موجود نہیں ہیں۔

تَوَارَتۡ چھپ گیا سے مراد سورج لیتے ہیں جب کہ سورج کا یہاں کوئی ذکر ہے نہ قرینہ۔

مَسۡحًۢا سے مراد تلوار سے مسح لیتے ہیں جس کی عربی محاورے میں کوئی مثال نہیں ہے۔ مسح بالسیف مراد ہو، آیت میں اس کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔


آیات 31 - 33