آیت 158
 

وَ جَعَلُوۡا بَیۡنَہٗ وَ بَیۡنَ الۡجِنَّۃِ نَسَبًا ؕ وَ لَقَدۡ عَلِمَتِ الۡجِنَّۃُ اِنَّہُمۡ لَمُحۡضَرُوۡنَ﴿۱۵۸﴾ۙ

۱۵۸۔ اور انہوں نے اللہ میں اور جنوں میں رشتہ بنا رکھا ہے، حالانکہ جنات کو علم ہے کہ وہ (اللہ کے سامنے) حاضر کیے جائیں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ مشرکین جن اور اللہ کے درمیان کسی قسم کے رشتے کے قائل تھے؟ مفسرین کے اقوال میں اضطراب ہے۔ بعض کہتے ہیں رشتے سے مراد یہ ہے کہ مشرکین نے شیطان کو اللہ کے ساتھ عبادت میں شریک کیا۔ دیگر بعض کے نزدیک اس رشتے سے مراد مشرکین کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ نے جنات سے ازدواج کیا جس سے فرشتے پیدا ہوئے۔ بعض کہتے ہیں جنات سے مراد ملائکہ ہیں۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد ثنویت ہے کہ شیطان کو شر کا خالق اور اللہ کو خیر کا خالق ٹھہراتے ہیں۔

ان اقوال میں سے بعض اقوال مفہوم و سیاق سے دور ہیں تاہم ان میں سے دیگر کسی قول کا انتخاب مشکل ہے۔

۲۔ وَ لَقَدۡ عَلِمَتِ الۡجِنَّۃُ اِنَّہُمۡ لَمُحۡضَرُوۡنَ: جنات کا اللہ کے ساتھ رشتہ کیا ہو سکتا ہے، خود جنات کو اللہ کی عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں اپنی قسمت کا فیصلہ سننا ہے۔ اس جملے سے معلوم ہوا کہ جنات سے مراد فرشتے نہیں ہیں۔


آیت 158