آیات 102 - 103
 

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰی ؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔ پھر جب وہ ان کے ساتھ کام کاج کی عمر کو پہنچا تو کہا: اے بیٹا! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، پس دیکھ لو تمہاری کیا رائے ہے، اس نے کہا : اے ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔

فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَ تَلَّہٗ لِلۡجَبِیۡنِ﴿۱۰۳﴾ۚ

۱۰۳۔ پس جب دونوں نے (حکم خدا کو) تسلیم کیا اور اسے ماتھے کے بل لٹا دیا،

تفسیر آیات

۱۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ: جب حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے والد کے ساتھ کام کاج کے لیے چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچ گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ انہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو برائے رضا خدا ذبح کرنے کا حکم ملا۔ انبیاء علیہم السلام کے خواب وحی کا درجہ رکھتے ہیں اور وحی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اس لیے حضرت ابراہیم علیہم السلام کو اس بات میں کوئی تردد نہیں ہوا کہ اپنے لخت جگر کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کا حکم مل رہا ہے۔

شیخ طوسی التبیان میں اس جگہ لکھتے ہیں:

اللہ تعالیٰ نے بیداری میں بذریعہ وحی حضرت ابراہیم علیہم السلام کو بتا دیا تھا کہ خواب میں جو حکم آئے گا اس پر عمل کرنا ہو گا۔ اگر وحی کے ذریعے پہلے نہ بتایا ہوتا تو صرف خواب پر عمل پیرا نہ ہوتے۔ خواب انبیاء وحی ہیں لیکن بیداری کی وحی کی تاکید سے۔

۲۔ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰی: دیکھوں تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت خلیل علیہ السلام کا اپنے کمسن بچے کی رائے پوچھنا دلیل ہے کہ بچہ رشد، عقل کے کامل درجہ پر فائز تھا۔ کہتے ہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر اس وقت ۱۳، سال تھی۔ اس عمر کے بچے کو اپنی جان کا نذرانہ دینے کے لیے مکلف بنایا جا سکتا ہے تو علی علیہ السلام کو ایمان کے لیے مکلف بنانے میں لوگوں کو اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔

۳۔ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ: اے اباجان! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں۔ فرزند کا ایثار اور رشد عقلی حیرت انگیز ہے کہ جواب میں کہا جو آپ کو حکم ملا ہے۔ باپ کے خواب پر نہ صرف باپ کو یقین ہے، فرزند کو بھی یقین ہے۔ فرزند یہ بھی جانتا ہے کہ میرے باپ حکم خدا کے آگے سرتسلیم خم کرنے والے ہیں۔ اس سلسلے میں مہر پدری رکاوٹ نہیں بنے گی۔ مجھے بھی حکم خدا تسلیم کرنا چاہیے اور جان کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔

۴۔ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ: جس طرح باپ نے مہر پدری ایک طرف رکھ کر حکم الٰہی کو سامنے رکھا ہے فرزند نے بھی اپنی جان ایک طرف رکھ کر حکم الٰہی کے آگے سرتسلیم خم کیا۔ صبر کی اس حیرت انگیز منزل پر بیٹا اپنے اولوالعزم باپ سے کم نظر نہیں آتا۔

۵۔ فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا: جب دونوں نے امر الٰہی تسلیم کیا۔ نہایت قابل توجہ ہے مقام تسلیم میں باپ اور بیٹا ایک منزل پر نظر آتے ہیں۔ دونوں کے لیے ایک تعبیر اَسۡلَمَا ، دونوں نے تسلیم اختیار کی۔ اسلام اسی تسلیم و رضا کا نام ہے:

مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ۔۔۔۔ (۲۲ حج: ۷۸)

یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے اسی نے تمہارا نام مسلمان رکھا۔

۶۔ وَ تَلَّہٗ لِلۡجَبِیۡنِ: اسے ماتھے کے بل یعنی اوندھے منہ لٹا دیا تاکہ ذبح کرتے وقت چہرہ فرزند کے اضطراب سے باپ کے عزم میں تزلزل نہ آئے۔

جبین ، پیشانی کے دونوں جانب کو کہتے ہیں، خود پیشانی کو جبین نہیں کہا جاتا اور نہ جبین کہ کر مجازاً پیشانی مراد لی جاتی ہے۔ آیت اور استعمالات عرب میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ جبین سے مراد پیشانی لی جاتی ہے۔ بیشتر مفسرین نے دونوں احتمالات کا ذکر کیا ہے۔ ممکن ہے جبین سے مراد پیشانی اس روایت کی بنا پر لی گئی ہو کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خود یہ درخواست کی، ابّا مجھے منہ کے بل لٹا دیجیے تاکہ ذبح کے وقت میرے چہرے کی حالت دیکھ کر شفقت پدری حکم خدا کی تعمیل میں رکاوٹ نہ بنے۔


آیات 102 - 103