آیات 104 - 105
 

وَ نَادَیۡنٰہُ اَنۡ یّٰۤاِبۡرٰہِیۡمُ﴿۱۰۴﴾ۙ

۱۰۴۔ تو ہم نے ندا دی: اے ابراہیم!

قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا ۚ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ تو نے خواب سچ کر دکھایا، بے شک ہم نیکوکاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔

تفسیر آیات

اپنے کم سن بچے کو ذبح کر نے کی نیت سے زمین پر لٹانے کے بعد کیا ہوا؟

قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے اور وَ تَلَّہٗ لِلۡجَبِیۡنِ اور وَ نَادَیۡنٰہُ کی درمیانی خالی جگہ پُر کرنے کے لیے بہت سی روایات شیعہ سنی مصادر میں ہیں:

i۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کے حلق پر چھری چلا دی مگر چھری کو جبریل نے الٹ دیا۔

ii۔ گلے پر تانبے کا ایک ٹکڑا آگیا۔

iii۔ گلے کی طرف ہاتھ بڑھا ہی تھا ندا آگئی۔

iv۔ چھری اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو ندا آگئی۔

ان روایات میں سے کسی ایک کو ترجیح نہیں دی جا سکتی۔

ایک توجیہ یہ بھی کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کے لیے جو اقدامات کیے، وہی خواب میں آئے تھے۔ خواب میں یہ تو نہیں آیا تھا کہ ذبح کا کام عمل میں آچکا ہے لہٰذا ذبح کے لیے جو اقدامات کیے یہی خواب کی تعمیل تھی۔ اس لیے ندا آئی قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا آپ نے خواب سچ کر دکھایا۔

بہرحال یہاں تک تو بات واضح ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں جو حکم ملا اس سے فرزند کو ذبح کرنے کا حکم سمجھا اور اس پر عمل کرنے کے لیے مکمل آمادگی کے ساتھ فرزند کو ذبح کرنے کے پختہ عزم و ارادے سے لٹایا اور ایسے مرحلے میں داخل ہو گئے جس کے بعد ذبح کا عمل وقوع پذیر ہونے میں کوئی فاصلہ باقی نہ رہا۔ آزمائش پوری ہو گئی۔ ذبح کا وقوع پذیر ہونا منظور نہ تھا۔ ندا آئی قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا۔۔۔۔

اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ: ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ جزا مل گئی کہ بیٹے کی قربانی کی عظیم آزمائش میں کامیاب ہوگئے اور فرزند کی نعمت بھی نہ چھینی گئی۔


آیات 104 - 105