آیات 88 - 89
 

فَنَظَرَ نَظۡرَۃً فِی النُّجُوۡمِ ﴿ۙ۸۸﴾

۸۸۔ پھر انہوں نے ستاروں پر ایک نظر ڈالی،

فَقَالَ اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ﴿۸۹﴾

۸۹۔ اور کہا: میں تو بیمار ہوں۔

تفسیر آیات

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ستاروں کی طرف کیوں نگاہ کی اس کی کئی توجیہات ہیں:

i۔ ستارہ پرستوں کا یہ گمان عام تھا کہ بیماری کسی ستارے کے طلوع سے مربوط ہے۔ اپنے عقیدے کے مطابق نہیں، مشرکین کے عقیدے کے مطابق، بقول تمہارے اس ستارے کے طلوع کے موقع پر بیمار ہوتا ہوں۔

ii۔ آپ کو واقعی ایک بیماری لاحق تھی۔ مثلاً تپ کا دورہ پڑتا تھا۔ ستاروں کی گردش سے اس دورے کے وقت کا تعین ہوتا تھا۔ ستاروں کی طرف دیکھ کر آپ علیہ السلام کو علم ہوا کہ دورہ پڑنے والا ہے تو فرمایا: اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ میں بیمار ہونے والا ہوں۔ جس طرح اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ ﴿۳۰﴾۔ (۳۹ زمر:۳۰ (ترجمہ) اے رسول) یقینا آپ کو بھی انتقال کرنا ہے اور انہیں بھی یقینا مرنا ہے۔) کہتے ہیں۔

iii۔ سوچنے اور غور کرنے کے لیے یہ عربی کا ایک محاورہ ہے۔ جب انسان کسی مسئلے پر سوچنے لگتا ہے تو کہتے ہیں: نَظۡرَۃً فِی النُّجُوۡمِ۔

ان سب سے کسی ایک کو اختیار کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ نہ ہی اس آیت میں کوئی اشارہ ملتا ہے۔

فَقَالَ اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ: ستاروں پر نظر ڈالنے کے بعد فرمایا: میں بیمار ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کے میلے میں شرکت کرنا نہیں چاہتے تھے۔ کیا اس کے لیے یہ بہانہ تھا؟ یا واقعاً اس وقت بیماری لاحق تھی؟ ہمارے پاس ایسے شواہد موجود نہیں ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بیمار نہیں تھے انہوں نے معاذ اللّٰہ جھوٹ بولا ہے۔ اگر بیمار نہیں تھے تو ان کے لوگ اس عذر کو قبول نہ کرتے۔

اس جگہ ابو ہریرہ کی اس روایت کو ہم قبول نہیں کر سکتے جو کہتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین جھوٹ بولے تھے، خواہ ارباب روایت اسے صحیح السند کی سند عنایت کریں۔


آیات 88 - 89