آیات 34 - 35
 

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ اِلَّا قَالَ مُتۡرَفُوۡہَاۤ ۙ اِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلۡتُمۡ بِہٖ کٰفِرُوۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور ہم نے کسی بستی کی طرف کسی تنبیہ کرنے والے کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں کے مراعات یافتہ لوگ کہتے تھے: جو پیغام تم لے کر آئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔

وَ قَالُوۡا نَحۡنُ اَکۡثَرُ اَمۡوَالًا وَّ اَوۡلَادًا ۙ وَّ مَا نَحۡنُ بِمُعَذَّبِیۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اور کہتے تھے: ہم اموال اور اولاد میں بڑھ کر ہیں ہم پر عذاب نہیں ہو گا۔

تشریح کلمات

مترف:

( ت ر ف ) التُّرفۃ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ: خوشحالی اور ناز و نعمت کی فراوانی سے قدریں بدل جاتی ہیں اور دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔ دولت انسان کو بے نیازی کے غلط احساس میں مبتلا کر دیتی ہے:

کَلَّاۤ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی اَنۡ رَّاٰہُ اسۡتَغۡنٰی ﴿۷﴾ (۹۶علق: ۶۔۷)

ہرگز نہیں! انسان تو یقینا سر کشی کرتا ہے۔ اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے۔

پھر انبیاء علیہم السلام کی دعوت اور اس مراعات یافتہ طبقے کے مفادات میں ٹکراؤ ہے۔انبیاء علیہم السلام مال کو وسیلہ سمجھتے ہیں اور یہ لوگ مال کو منزل سمجھتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام عدل و انصاف کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ لوگ استحصال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ پھر مال کے سیاہ پردوں کے پیچھے دل تک حق کی آواز نہیں پہنچ پاتی۔

قرآن نے اس بات کو ایک کلی امر کے طور پر بیان فرمایا ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی ہم نے کسی بستی میں رسول بھیجا، وہاں مراعات یافتہ اور نازپروروں نے اس رسول کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ سورۂ زخرف کی آیت ۲۳ میں بھی اسی مطلب کو ایک کلیہ کے طور پر بیان فرمایا ہے:

وَ کَذٰلِکَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ اِلَّا قَالَ مُتۡرَفُوۡہَاۤ ۙ اِنَّا وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤی اُمَّۃٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤی اٰثٰرِہِمۡ مُّقۡتَدُوۡنَ﴿۲۳﴾

اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کسی بستی کی طرف کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں کے عیش پرستوں نے کہا: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک رسم پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔

۲۔ وَ قَالُوۡا نَحۡنُ اَکۡثَرُ اَمۡوَالًا: دولت کے نشے میں مدہوش یہ لوگ کہتے ہیں: ہمارے پاس چونکہ مال و اولاد کی فراوانی ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہے اور جب اللہ کی خوشنودی ہمارے ساتھ ہے تو اللہ ہمیں عذاب نہیں دے گا۔

وَّ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً ۙ وَّ لَئِنۡ رُّدِدۡتُّ اِلٰی رَبِّیۡ لَاَجِدَنَّ خَیۡرًا مِّنۡہَا مُنۡقَلَبًا﴿۳۶﴾ (۱۸ کہف: ۳۶)

اور میں خیال نہیں کرتا کہ قیامت آنے والی ہے اور اگر مجھے میرے رب کے حضور پلٹا دیا گیا تو میں ضرور اس سے بھی اچھی جگہ پاوں گا۔

اہم نکات

۱۔ دولت کے سیاہ پردوں کے پیچھے موجود دل تک حق کی آواز نہیں پہنچتی۔

۲۔ دولت مند ہمیشہ داعیان حق کے مخالف ہوتے ہیں۔


آیات 34 - 35