آیات 96 - 98
 

قَالُوۡا وَ ہُمۡ فِیۡہَا یَخۡتَصِمُوۡنَ ﴿ۙ۹۶﴾

۹۶ ۔ اور وہ اس میں جھگڑتے ہوئے کہیں گے:

تَاللّٰہِ اِنۡ کُنَّا لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۹۷﴾

۹۷۔ قسم بخدا! ہم تو صریح گمراہی میں تھے۔

اِذۡ نُسَوِّیۡکُمۡ بِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۹۸﴾

۹۸۔ جب ہم تمہیں رب العالمین کے برابر درجہ دیتے تھے۔

۲۔ جھگڑا اور خصوصمت ناکامی کا لازمہ ہے۔ چنانچہ جہنم والوں کے باہمی جھگڑوں کو ایک حقیقت کے طور پر بیان فرماتا ہے:

لَحَقٌّ تَخَاصُمُ اَہۡلِ النَّارِ (۳۸ ص: ۶۴)

جہنمیوں کے باہمی جھگڑے کی حتمی بات ہے۔

اہل آتش کے باہمی جھگڑے حتمی اور حقیقت ہیں۔ چنانچہ شکست خوردہ جماعت اپنی شکست اور رسوائی کے بعد آپس میں جھگڑتی ہے جب کہ کامیابی حاصل کرنے والی جماعت خوشی کا جشن مناتی ہے۔

۳۔ اب وہ قسم کھا کر کہیں گے کہ ان خود ساختہ معبودوں کو رب العالمین کے برابر لانا کتنی بڑی گمراہی تھی۔ ایک جامد، بے روح جسم کو اس ذات کے برابر لانا جس کے ہاتھ میں کل کائنات کے خزانے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ انسان جب گمراہی کی تاریکی میں جاتا ہے تو ایک جامد، حقیر اور رب العالمین میں فرق سمجھ میں نہیں آتا۔


آیات 96 - 98