آیات 69 - 71
 

وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۘ۶۹﴾

۶۹۔ اور انہیں ابراہیم کا واقعہ (بھی) سنا دیجئے:

اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖ مَا تَعۡبُدُوۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔ انہوں نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: تم کس چیز کو پوجتے ہو؟

قَالُوۡا نَعۡبُدُ اَصۡنَامًا فَنَظَلُّ لَہَا عٰکِفِیۡنَ﴿۷۱﴾

۷۱۔ انہوں نے جواب دیا: ہم بتوں کو پوجتے ہیں اور اس پر ہم قائم رہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَ: قریش کے سامنے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ سنا دیں۔ اول تو قریش حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مانتے ہیں، ان کی اولاد ہونے پر فخر کرتے ہیں اور ان کی پیروی کرنے کے بھی مدعی ہیں۔ ثانیاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات طیبہ میں ایسے نقوش ہیں جنہیں سامنے رکھنے سے جرأت اور ہمت میں اضافہ ہوتا اور ان کی سیرت میں اپنے مشن کی کامیابی کی نوید ملتی ہے۔

۲۔ مَا تَعۡبُدُوۡنَ: اپنے چچا اور قوم سے ایک سوال اٹھاتے ہیں جس کا مقصد گفتگو کو آگے چلانا ہے ورنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو علم ہے کہ وہ کس چیز کی پوجا کرتے ہیں۔

۳۔ قَالُوۡا نَعۡبُدُ اَصۡنَامًا: کہا: ہم بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔

عہد ابراہیمی میں لوگ ستارہ پرست تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ روئے زمین پر گزرنے والے واقعات کا ستاروں کے ساتھ تعلق ہے اس سے وہ ستاروں کی تعظیم کرنے لگے۔پھر وہ انہی ستاروں کو مدبر عالم کہنے لگے۔ پھر ان کی پوجا شروع ہو گئی۔ چونکہ ستارے غروب ہو کر غائب ہوجاتے ہیں اس لیے ان کی شبیہ بنانے کی رسم بھی شروع ہو گئی۔ پھر رفتہ رفتہ مدبریت کے شعبے بنائے گئے۔ ان میں سے کسی ستارے کو کسی ایک شعبہ سے مربوط سمجھا گیا۔ چنانچہ ستارہ زہرہ کیف و سرور کا رب ہے۔ اسے ایک جوان لڑکی کی شکل دے دی گئی۔ خون خرابہ کو مریخ کے ساتھ اور علم و حرمت کو عطارد کے ساتھ مربوط سمجھا گیا وغیرہ۔


آیات 69 - 71