آیت 67
 

وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا﴿۶۷﴾

۶۷۔ اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں بلکہ ان کے درمیان اعتدال رکھتے ہیں۔

تشریح کلمات

یَقۡتُرُوۡا:

( ق ت ر ) القتر کے معنی بہت کم خرچ کرنے اور بخل کے ہیں۔

قَوَامًا:

( ق و م ) قواماً بفتح قاف ۔ اعتدالی کے معنوں میں ہیں۔

تفسیر آیات

عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ کی پانچویں صفت خرچ میں اعتدال ہے۔

۱۔ لَمۡ یُسۡرِفُوۡا: اسراف ضرورت یا حد سے زیادہ اور الاقتار واجب اور ضرورت سے کم خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔

اسراف دولت کا ضیاع، محتاجوں کے حقوق کی پامالی ہے:

اِنَّمَا الْاِسْرَافُ فِیْمَا اَتْلَفَ الْمَالَ وَ اَضَرَّ بِالْبَدَنِ ۔ (الکافی ۶: ۴۹۹)

اسراف وہاں ہے جہاں مال کا ضیاع اور بدن کا ضرر ہو۔

۲۔ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا: الاقتار بخل کرنے کو کہتے ہیں۔ بخل بہت بری خصلت ہے۔ حدیث میں آیا ہے:

اَیُّ دِائٍ اَدْوَی مِنَ الْبُخْلِ ۔۔۔۔ (الکافی ۲: ۴۴)

بخل سے زیادہ کون سی بیماری ہو سکتی ہے۔

البخل بالموجود سوء الظن بالمعبود ۔ ( غرر الحکم:۶۵۱۲)

مال موجود پر بخل کرنا معبود پر بدگمانی ہے۔

بخل خیانت ہے اس مال میں جسے اللہ نے اہل ایمان کو اپنے نائب کے طور پر امانتاً دیا ہے:

وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ ۔۔۔۔۔۔ (۵۷ حدید: ۷)

اور اس مال سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں جانشین بنایا ہے۔

مؤمن کی صفت یہ ہے کہ وہ نہ اسراف کرتے ہیں نہ ہی کنجوسی کرتے ہیں۔ اسراف طاقت کا ضیاع اور کنجوسی طاقت کا جمود ہے۔ اسلام فردی ملکیت کا قائل ہے لیکن اس ملکیت میں نہ ضیاع کی اجازت دیتا ہے نہ جمود کی بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک اعتدال کی سفارش کرتا ہے۔ احادیث میں اس اعتدال کو دو برائیوں کے درمیان ایک نیکی قرار دیا ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ حضرت امام محمد باقر نے حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام سے فرمایا:

یا بنی عَلَیْکَ بِالْحَسَنَۃِ بَیْنَ السَّیِّئَتَیْنِ ۔۔۔ (بحار الانوار ۶۸: ۲۱۶)

بیٹا! تم دو برائیوں کے درمیان ایک نیکی اختیار کرو۔

پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

اسراف کی دو صورتیں ہیں: ناجائز کام پر پیسہ خرچ کرنا خواہ ایک روپیہ ہی کیوں نہ ہو۔ دوسری صورت جائز کاموں میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا۔ اسی طرح بخل کی بھی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ اپنے اور اپنے بچوں پر اپنی استطاعت کے مطابق خرچ نہ کرے اور ان کو تنگی میں رکھے۔ دوسری صورت یہ کہ کسی نیکی کے کام میں کوئی پیسہ خرچ نہ کرے۔

اہم نکات

۱۔ اسراف اور بخل کے درمیان اعتدال مؤمن کی علامت ہے۔


آیت 67