آیات 68 - 69
 

وَ الَّذِیۡنَ لَا یَدۡعُوۡنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ وَ لَا یَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ لَا یَزۡنُوۡنَ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ یَلۡقَ اَثَامًا ﴿ۙ۶۸﴾

۶۸۔ اور یہ لوگ اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بنا کر نہیں پکارتے اور جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہیں کرتے مگر جائز طریقہ سے اور زنا کا ارتکاب (بھی) نہیں کرتے اور جو ایسا کام کرے گا وہ اپنے گناہ میں مبتلا ہو گا۔

یُّضٰعَفۡ لَہُ الۡعَذَابُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ یَخۡلُدۡ فِیۡہٖ مُہَانًا﴿٭ۖ۶۹﴾

۶۹۔ قیامت کے دن اس کا عذاب دوگنا ہو جائے گا اور اسے اس عذاب میں ذلت کے ساتھ ہمیشہ رہنا ہو گا ۔

تفسیر آیات

عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ کی چھٹی صفت اخلاص در توحید ہے۔

۱۔ لَا یَدۡعُوۡنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ: وہ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے بلکہ صرف اللہ کو پکارتے ہیں۔ یہ اشارہ ہے ان لوگوں کی طرف جو ایک معبود کو ماننے کے باوجود غیر اللہ سے لو لگاتے ہیں یا مَعَ اللّٰہِ کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ انسان اگرچہ بظاہر مشرک ہوتا ہے لیکن اس کا باطن، اس کی فطرت اور جبلت توحید سے سرشار ہوتی ہے۔ اس طرح مشرک کے بارے میں بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ غیر اللہ کو اللہ کے ساتھ پکارتا ہے۔

۲۔ کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتا۔ یہ مؤمن کو ساتویں صفت ہے۔ چونکہ قتل نفس ان بڑے گناہوں میں شمار ہوتا ہے جس پر جہنم کی سزا مقرر ہے۔ اِلَّا بِالۡحَقِّ البتہ یہ قتل ناحق نہ ہو تو گناہ نہیں ہے۔ مثلاً قصاص میں قتل کرنا گناہ نہیں ہے۔

۳۔ وَ لَا یَزۡنُوۡنَ: وہ زنا کا ارتکاب نہیں کرتے۔ یہ مؤمن کی آٹھویں صفت ہے۔ حدیث میں آیا ہے:

اِذَا فَشَا الزِّنَا ظَہَرَتِ الزَّلْزَلَۃُ ۔۔۔۔ (الکافی ۲: ۴۴۷)

جب زنا عام ہو جائے تو زلزلہ آیا کرے گا۔

۴۔ ایسے گناہوں کے مرتکب لوگوں کو اس صورت میں جہنم میں دائمی عذاب ہو گا جو حالت کفر میں مر جائیں اور انہوں نے قتل اور زنا کا ارتکاب بھی کیا ہو چونکہ صرف قتل اور زنا کے گناہ سے عذاب تو ہو گا مگر دائمی عذاب نہ ہو گا۔


آیات 68 - 69