آیت 91
 

مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنۡ وَّلَدٍ وَّ مَا کَانَ مَعَہٗ مِنۡ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ کُلُّ اِلٰہٍۭ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ ﴿ۙ۹۱﴾

۹۱۔ اللہ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے، اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود اپنی مخلوقات کو لے کر جدا ہو جاتا اور ایک دوسرے پر چڑھائی کر دیتا، اللہ پاک ہے ان چیزوں سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنۡ وَّلَدٍ: تشریح کے لیے بقرہ ۱۱۶، الانبیاء : ۲۷ ملاحظہ فرمائیں۔

۲۔ وَّ مَا کَانَ۔۔۔۔ اِذًا لَّذَہَبَ: اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہے تو وہ اس وقت معبود ہو سکتا ہے جب وہ خالق ہو۔ اگر تمہارے سب معبود بھی خالق ہیں تو:

i۔ ہر معبود کی مخلوقات کی تشخیص ہو جاتی یہ کس معبود کی مخلوقات ہیں۔ اس معبود کی خلق دوسرے معبود کی خلق سے جدا ہوتی۔ اس صورت میں ہر معبود اپنا اپنا نظام قائم کرتا اور آپس میں کسی قسم کا ارتباط نہ ہوتا بلکہ ہر ایک کا اپنا اپنا مستقل نظام ہوتا۔

مثلاً ایک معبود سمندر کا نظام اور دوسرا خشکی کا نظام چلا رہا ہوتا تو خشکی کو سمندر سے کوئی ربط نہیں ہونا چاہیے۔ اسے اگر بادل، بارش کی ضرورت ہے تو اس کا انتظام سمندر سے ہٹ کر اپنے پاس ہونا چاہیے۔ دوسرے کے نظام کے بخارات اور بادل و بارش کے انتظار میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ جب کہ موجودہ نظام اس بات کی تائید کرتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز دوسرے سے مربوط ہے:

مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ۔۔ (۶۷ ملک: ۳)

تو رحمن کی تخلیق میں کوئی بدنظمی نہیں دیکھے گا۔

لہٰذا نظام کی وحدت سے خالق اور نظام دہندہ کی وحدت ثابت ہوتی ہے۔

سوال: مشرکین اللہ کو خالق سمجھتے تھے:

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ۔۔۔۔ (۳۱ لقمان: ۲۵)

اور اگر آپ ان سے پوچھیں: آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یہ ضرور کہیں گے: اللہ نے۔

آیت میں کیسے ان معبودوں کے ساتھ خلق کو فرض کر لیا گیا ہے؟

جواب: اول تو ممکن ہے لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ کا جواب بزبان حال ہو، بزبان مقال نہ ہو۔ ثانیاً مشرکین اگرچہ آسمانوں اور زمین کا خالق اللہ کو تسلیم کرتے تھے تاہم وہ روز مرہ زندگی سے مربوط جزئیات کا خالق اپنے معبودوں کو سمجھتے تھے چونکہ وہ اپنے معبودوں کو مالک و مدبر سمجھتے تھے اور خلق و تدبیر قابل تفریق نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں وہ اپنے معبودوں کو مدبر سمجھتے تھے ان کو خالق بھی سمجھتے تھے۔ اس بات پر یہی آیت گواہ ہے۔ اس آیت کے علاوہ دیگر آیات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں:

وَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ (۱۶ نحل: ۲۰)

اور اللہ کو چھوڑ کر جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو خلق نہیں کر سکتے بلکہ خود مخلوق ہیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَنۡ یَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا ۔۔۔۔ (۲۲ حج:۷۳)

اللہ کے سوا جن معبودوں کو تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی بنانے پر بھی ہرگز قادر نہیں ہیں۔۔۔۔

صاحب المیزان کہتے ہیں: مشرکین اپنے معبودوں کے خلق افعالی کے قائل تھے۔ خلق ایجادی کو صرف اللہ کے ساتھ مخصوص سمجھتے تھے۔

۲۔ وَ لَعَلَا بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ: ایک مستقل خالق کو اپنے تخلیقی و تدبیری عمل میں جب استقلال حاصل ہے تو وہ کسی دوسرے خالق سے قطع نظر اپنا تخلیقی عمل جاری رکھے گا۔ اسی طرح دوسرا خالق بھی۔ لہٰذا دو مستقل خالقوں کی تخلیق ایک دوسرے کی تخلیق سے ٹکرائے گی اور دونوں کا نظام تخلیق درہم برہم ہو جائے گا۔ اگر نہ ٹکرائے اور اپنی حد میں تخلیقی عمل جاری رکھے تو دو مستقل نظام وجود میں آئیں گے جو ایک دوسرے سے مربوط نہیں ہوں گے۔ یہ فرض آیت کے پہلے جملے میں باطل ثابت کیا گیا ہے۔ ہمارے اس بیان سے وہ سوال پیدا نہیں ہوتا جو عموماً اٹھایا جاتا ہے:

ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ دو حکیم و دانا خالق اپنے اپنے دائرے میں نظام و خلق چلائیں اور ایک دوسرے پر چڑھ نہ دوڑیں؟

اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: سورہ انبیاء آیت ۲۲۔


آیت 91