آیت 71
 

وَ لَوِ اتَّبَعَ الۡحَقُّ اَہۡوَآءَہُمۡ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہِنَّ ؕ بَلۡ اَتَیۡنٰہُمۡ بِذِکۡرِہِمۡ فَہُمۡ عَنۡ ذِکۡرِہِمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿ؕ۷۱﴾

۷۱۔ اور اگر حق ان لوگوں کی خواہشات کے مطابق چلتا تو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب تباہ ہو جاتے، بلکہ ہم تو ان کے پاس خود ان کی اپنی نصیحت لائے ہیں اور وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ کائنات برحق قائم ہے:

وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۷۳)

اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا۔

اگر حق لوگوں کی بے مقصد خواہشات کی پیروی کرے تو کائنات کی معقولیت ختم ہو جائے گی۔ کیونکہ اگر حق لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ لوگوں کو اپنی بیہودہ خواہشات میں مگن رہنے کی ترغیب کرے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ کائنات عبث اور بیہودہ خلق ہوئی ہے۔ کسی کمال و سعادت کے لیے نہیں بلکہ ان بیہودگیوں کے لیے ہی خلق ہوئی ہے۔ اس طرح کل کائنات بے مقصد ہو جائے گی۔ کائنات کی تخلیق کا نتیجہ فاسد ہونے سے خود کائنات بھی فاسد ہو جائے گی۔

شیخ طوسی علیہ الرحمۃ اس جگہ فرماتے ہیں:

حق نیک افعال اور خواہشات برے افعال کی دعوت دیتی ہیں۔ اگر حق بھی خواہشات کی پیروی کرے تو حق بھی برے افعال کی دعوت دے اور فساد و دگرگونی کو پسند کرے گا۔ اس صورت میں عالم فاسد ہو جائے گا کیونکہ اگر ایسا ہوا تو دلیل پر اعتماد نہیں رہے گا، ظلم سے محفوظ رہنے کی کوئی ضمانت نہیں رہے گی، امور میں اس طرح بدنظمی آئے گی کہ کسی وعدے پر بھروسہ نہیں رہے گا اور اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں رہے گی کہ عدل الٰہی میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔

واضح رہے حق سے مراد حق وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں۔ آیت میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ اگر ہم حق کو نافذ کرنے کے لیے رسول نہ بھیجتے اور لوگوں کو ان کی خواہشات پر عمل کرنے کی تائید کرتے یا رسول آتے اور خواہشات کی تائید و حمایت کرتے تو دونوں صورتوں میں کائنات کا وجود عبث ہو جاتا۔

لہٰذا یہاں اتباع سے مراد تشریعی ہے، تکوینی اتباع نہیں ہے۔ تکوینی اتباع معقول نہیں ہے کہ کہا جائے کہ اگر اللہ کائنات کو بنانے اور چلانے میں لوگوں کی خواہشات کی اتباع کرتا تو آسمان و زمین فاسد ہو جاتے۔ جیسا کہ بہت سے حضرات کے لیے تکوین و تشریع میں خلط ہو گیا ہے۔

بَلۡ اَتَیۡنٰہُمۡ بِذِکۡرِہِمۡ: ذکر کی دو تفسیریں ہیں: ایک یہ کہ ذکر سے مراد عزت و شرافت ہے۔ دوسری تفسیر نصیحت ہے۔ آیت کا یہ مفہوم بنتا ہے:

یہ رسول جو حق لے کر آیا ہے وہ تمہاری اندھی خواہشات کی پیروی نہیں کرے گا کہ تم مزید ذلت و خواری کی تاریک تہ میں سرنگون ہو جاؤ بلکہ تمہاری عزت و شرافت کا سامان لے کر آیا ہے۔ تمہیں دنیا کی سرداری دینے آیا ہے۔

دوسری تفسیر کے مطابق: تمہیں ذلت و خواری سے نکالنے کے لیے نصیحت لے کر آیا ہے کہ تم نوع بشر کی قیادت کے اہل بن جاؤ۔

اہم نکات

۱۔ لوگوں کی خواہشات کی اتباع کائنات کی غرض خلقت کی نفی ہے۔


آیت 71