آیت 68
 

قَالُوۡا حَرِّقُوۡہُ وَ انۡصُرُوۡۤا اٰلِہَتَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ فٰعِلِیۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ وہ کہنے لگے: اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی نصرت کرو۔

تفسیر آیات

۱۔ جابر کا ہمیشہ یہی مزاج رہا ہے کہ جب اس کے پاس کوئی منطق نہیں رہتی ہے تو وہ طاقت استعمال کرتا ہے۔ چنانچہ جابر لوگوں نے ابراہیم علیہ السلام کے لیے وہ سزا تجویز کی جو سب سے زیادہ شدید عذاب ہے۔ یعنی جلانے کا حکم ہوا۔

۲۔ وَ انۡصُرُوۡۤا اٰلِہَتَکُمۡ: اپنے معبودوں کی مدد کرو۔ ان کے معبود اپنے بندوں کی نصرت کے محتاج ہیں۔ اگر احتیاج کی بنیاد پر بندگی درست ہے تو بتوں کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی پوجا کریں۔ جن کے یہ محتاج ہیں۔

چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منجنیق پر آویزاں کیا گیا۔ ہیبت ناک شعلوں کی طرف بڑھائے جا رہے تھے، اس وقت جبرئیل نازل ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا: الک حاجۃ؟ آپ کی کوئی حاجت ہے؟

فرمایا: اما الیک فلا ۔ آپ سے کوئی حاجت نہیں ہے۔ (مستدرک الوسائل۔۳:۳۰۳۔ بحار الانوار۔ ۱۱:۶۲) چنانچہ ساری کائنات سے بے نیاز اپنے رب کی نیاز مندی میں پورے سکون کے ساتھ آتش میں اتر گئے۔


آیت 68