آیت 82
 

وَ اِنِّیۡ لَغَفَّارٌ لِّمَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہۡتَدٰی﴿۸۲﴾

۸۲۔ البتہ جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل انجام دے پھر راہ راست پر چلے تو میں اسے خوب بخشنے والا ہوں۔

تفسیر آیات

شرک سے توبہ کرے، اللہ و رسولؐ پر ایمان لائے، پھر عمل صالح کے ساتھ ہدایت پر قائم رہے تو اللہ اس کے لیے غفار ہے۔

غفار: بہت زیادہ معاف کرنے والا۔ اگر انسان سے بار بار گناہ سرزد ہوتا ہے تو اللہ ہر بار معاف فرماتا ہے۔ بندہ گناہ کرتا جاتا ہے اور اللہ معاف کرتا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جہاں بندہ ظالم ہو گا وہاں اللہ غفار ہے مگر یہ بات ہر صورت اور ہر فرد کے لیے نہیں۔

ایمان و عمل صالح والوں کے لیے ہے۔ پھر راہ راست پر قائم رہنے والوں کے لیے ہے۔

دوسری آیت میں ثُمَّ اہۡتَدٰی کی جگہ وَ اَصۡلَحُوۡا آیا ہے:

اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ وَ اَصۡلَحُوۡا ۟ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (۳ آل عمران:۸۹)

سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اصلاح کر لی، پس اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ غفار ہے لیکن بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو مغفرت الٰہی کے لیے اہل بنائے۔ چنانچہ اللہ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ہے لیکن بندے کو چاہیے اپنے آپ کو رحمت الٰہی کے لیے اہل بنائے۔

احادیث میں آیا ہے کہ ایمان و عمل صالح کے بعد اہل بیت علیہم السلام کی محبت سے انسان مغفرت الٰہی کا اہل بنتا ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے۔

۔۔۔ ثم اھتدی قال الی ولایتنا اہل البیت ۔

توبہ، ایمان اور عمل صالح کے بعد جس ہدایت کا ذکر ہے وہ ہم اہل بیت کی محبت ہے۔

دوسری روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی جگہ تشریف لے جا رہے تھے پھر فرمایا:

ان اللّٰہ تعالیٰ یقول:وَ اِنِّیۡ لَغَفَّارٌ لِّمَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہۡتَدٰی و ثم قال لعلی بن ابی طالب الی ولایتک ۔

۔۔۔ ’’پھر ہدایت پایا‘‘ کے بارے میں علی بن ابی طالب سے فرمایا: تیری محبت کی طرف ہدایت پایا۔

اس نوع کی احادیث کے راوی درج ذیل ہیں:

i۔ علی بن ابی طالب علیہ السلام ملاحظہ ہو بحار الانوار ۔ ج ۳۶

ii۔ امام زین العابدین علیہ السلام ملاحظہ ہو المناقب شہر آشوب ۴:۱۲۹

iii۔ امام محمد باقر علیہ السلام ملاحظہ ہو شواہد التنزیل ۱:۴۹۲

iv۔ امام جعفر صادق علیہ السلام ملاحظہ ہو الکافی ۱:۳۹۲

v۔ ابوذر غفاری(رض) ملاحظہ ہو شواہد التنزیل ۱:۴۹۴

واضح رہے تفسیر میں ایک کلیہ مسلم ہے: العبرۃ بعموم اللفظ لابخصوص السبب ۔ قرآنی آیات میں الفاظ کی عمومیت دیکھی جاتی ہے، شان نزول کا خاص سبب نہیں دیکھا جاتا۔ لہٰذا اگرچہ یہ آیت بنی اسرائیل کے واقعات کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے تاہم بنی اسرائیل کا واقعہ گزر چکا پھر بھی آیت کی عمومیت قیامت تک باقی رہتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ شرک سے توبہ، ایمان اور عمل صالح کے ساتھ محبت اہل بیت علیہم السلام ہے تو مغفرت الٰہی اس کے شامل حال ہو گی۔


آیت 82