آیات 63 - 64
 

قَالُوۡۤا اِنۡ ہٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیۡدٰنِ اَنۡ یُّخۡرِجٰکُمۡ مِّنۡ اَرۡضِکُمۡ بِسِحۡرِہِمَا وَ یَذۡہَبَا بِطَرِیۡقَتِکُمُ الۡمُثۡلٰی﴿۶۳﴾

۶۳۔ وہ کہنے لگے: یہ دونوں تو بس جادوگر ہیں، دونوں چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری اس سر زمین سے نکال باہر کریں اور دونوں تمہارے اس مثالی مذہب کا خاتمہ کر دیں۔

فَاَجۡمِعُوۡا کَیۡدَکُمۡ ثُمَّ ائۡتُوۡا صَفًّا ۚ وَ قَدۡ اَفۡلَحَ الۡیَوۡمَ مَنِ اسۡتَعۡلٰی﴿۶۴﴾

۶۴۔ لہٰذا اپنی ساری تدبیریں یکجا کرو پھر قطار باندھ کر میدان میں آؤ اور آج جو جیت جائے گا وہی فلاح پائے گا۔

تفسیر آیات

آخر میں یہ طے ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے کا اعلان کیا جائے اور اس اعلان میں درج ذیل نکات اٹھائے جائیں:

i۔ یہ دونوں کوئی پیغمبر نہیں ہیں۔ یہ صرف جادوگر ہیں۔ ان کی جادوگری میں شک نہیں کرنا چاہیے۔

ii۔ یہ دونوں ہماری حکومت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کر رہے ہیں اور ہمیں اس سرزمین سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔

iii۔ یہ دونوں ہماری مثالی تہذیب، تمدن اور ثقافت کی تباہی اور اس کی جگہ اپنے نظریات کا غلبہ چاہتے ہیں۔

iv۔ فَاَجۡمِعُوۡا کَیۡدَکُمۡ: اپنی ساری تدبیریں یکجا کرو۔ پوری طاقت استعمال میں لے آؤ۔

ائۡتُوۡا صَفًّا: پوری قوم یک صف ہو کر مقابلے کے لیے آجائے۔

سیاق کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مقابلے کے موضوع پر اختلاف تھا اور مقابلے کے لیے ساحروں کو ہی بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ لہٰذا زیادہ امکان یہی ہے کہ ساحروں میں یا ساحروں اور درباریوں میں اختلاف تھا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ساحروں کے جادو پر غالب آیا اورساحر ایمان لے آئے تو اس وقت اظہار کیا کہ ہمیں مقابلے کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔ چنانچہ ساحروں نے فرعون سے کہا:

اِنَّـاۤ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغۡفِرَ لَنَا خَطٰیٰنَا وَ مَاۤ اَکۡرَہۡتَنَا عَلَیۡہِ مِنَ السِّحۡرِ ۔۔۔۔ ( ۲۰ طہ:۷۳)

ہم تو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے تاکہ وہ ہمارے گناہ معاف کرے اور جس جادوگری پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا اسے بھی معاف کر دے۔

وَ قَدۡ اَفۡلَحَ الۡیَوۡمَ مَنِ اسۡتَعۡلٰی: فرعون اس مقابلے کو فیصلہ کن قرار دے رہا ہے کہ جو آج جیت جائے گا کامیابی اسی کا مقدر ہے۔

قرآن میں کوئی غلطی نہیں ہے: حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ قرآن میں تین جگہ غلطی ہے جو قرآن کی کتابت کرنے والوں سے سرزد ہوئی ہے۔ وہ یہ ہیں:

۱۔ اِنۡ ہٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ ۔۔۔۔

۲۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الصّٰبِـُٔوۡنَ ۔۔۔۔ ( ۵ مائدہ:۶۹)

۳۔ وَ الۡمُقِیۡمِیۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ الۡمُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ ۔۔۔۔(۴ نساء:۱۶۲)

کہتے ہیں یہ روایت بشرط شیخین صحیح ہے۔ (روح المعانی ذیل آیت) جب کہ قرآن لفظ بہ لفظ حرف بحرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تواتر سے ثابت ہے پھر یہ اعتراض حفص کی قرائت پر جو کہ اِن سکون بہ نون کے ساتھ پڑھی جاتی ہے وارد نہیں ہوتا اور یہ قرائت، قرآن ناطق امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے متصل ہونے کی وجہ سے قابل ترجیح ہے۔ اعتراض اِنَّ کو شد کے ساتھ پڑھنے پر وارد ہوتا ہے جو قابل قبول قرائت نہیں ہے۔ پھر قابل توجہ بات یہ ہے کہ جہاں عربیت جاہلی اشعار سے ثابت ہوتی ہے وہاں اصلی عربیت قرآن سے ثابت ہوتی ہے۔ عربیت کے صحت و سقم کے لیے قرآن معیار ہے۔ اگر قرآن میں عربیت کے خلاف کوئی بات ہوتی تو آج کے معترضین سے زیادہ، وقت نزول قرآن کے مشرکین کو ضرورت تھی۔


آیات 63 - 64