آیات 49 - 50
 

قَالَ فَمَنۡ رَّبُّکُمَا یٰمُوۡسٰی﴿۴۹﴾

۴۹۔ فرعون نے کہا: اے موسیٰ! تم دونوں کا رب کون ہے؟

قَالَ رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی﴿۵۰﴾

۵۰۔ موسیٰ نے کہا: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی ۔

تفسیر آیات

مصر میں فرعون کو سورج دیوتا کا مظہر سمجھا جاتا تھا۔ جس طرح سورج ان کا سب سے بڑا معبود تھا خود فرعون بھی معبود کا درجہ رکھتا تھا کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق فرعون کی پرستش عین سورج کی پرستش سمجھی جاتی تھی۔

فرعون کا سوال: تم دونوں کا رب کون ہے؟ بتاتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام و فرعون میں بنیادی اختلاف رب پر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جس رب کی بات کرتے ہیں، فرعون اس رب کو نہیں جانتا ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ ذکر ہے کہ فرعون نے اس جگہ کہا: وَ مَا رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۔ (۲۶ شعراء: ۲۳) اور رب العالمین کیا ہے؟ چونکہ فرعون کی ثقافت میں یہ لفظ ایک اجنبی سا لفظ تھا۔

قَالَ رَبُّنَا الَّذِیۡۤ: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جواب میں رب کی جامع تعریف ہے اور فرعون کے مزاعم کی رد بھی۔ فرعون اور دیگر بت پرستوں کا زعم یہ ہے کہ خالق بے شک اللہ ہے لیکن خلقت کے بعد موجودات کے امور کی تدبیر دیگر ارباب کے ہاتھ میں ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: میرا رب وہ ہے جس نے جہاں ہر شیٔ کو اس کی خلقت عنایت کی ہے وہاں اس کی بقا و ارتقاء کے لیے ہدایت بھی عنایت فرمائی ہے۔ یعنی خلق اور تدبیر دونوں جس کے اختیار میں ہیں وہ میرا رب ہے۔ دوسرے لفظوں میں میرا رب وہ ہے جس نے پہلے ہر شی ٔ کو خلق کیا اس کے بعد اسے طریقہ زیست بھی بتایا۔ لوازم حیات کی سوجھ دی۔ دوست اور دشمن کی پہچان دی۔ میرا رب صرف تخلیق کر کے اسے کسی اور کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا بلکہ تخلیق کرتا ہے پھر اس مخلوق کو زندگی کا سلیقہ بھی خود دیتا ہے۔ جن باتوں پر ان موجودات کی بقاء و ارتقا موقوف ہے، ان کی سوجھ بھی ان میں ودیعت فرماتا ہے۔ جو سوجھ بوجھ خلقت کے ہمراہ ودیعت ہوتی ہے وہ تکوینی و فطری ہدایت ہے اور جو خلقت کی تکمیل کے بعد ہدایت ملتی ہے وہ تشریعی ہے۔ اگر ان موجودات میں خداداد سلیقہ زندگی نہ ہوتا تو کوئی اپنی زندگی کے لوازمات سے آشنا نہ ہوتا۔ نہ اپنی غذا کی پہچان ہوتی نہ دوست و دشمن کی شناخت۔ نہ ماں میں مامتا کی شناخت ہوتی، نہ بچے کو ماں کی چھاتی سے انس ہوتا۔

اہم نکات

۱۔ اللہ نے تمام موجودات میں اپنی زندگی کو قائم رکھنے کا سلیقہ ودیعت فرمایا ہے۔


آیات 49 - 50