آیات 45 - 46
 

قَالَا رَبَّنَاۤ اِنَّنَا نَخَافُ اَنۡ یَّفۡرُطَ عَلَیۡنَاۤ اَوۡ اَنۡ یَّطۡغٰی ﴿۴۵﴾

۴۵۔ دونوں نے کہا: اے ہمارے رب! ہمیں خوف ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا مزید سرکش ہو جائے گا۔

قَالَ لَا تَخَافَاۤ اِنَّنِیۡ مَعَکُمَاۤ اَسۡمَعُ وَ اَرٰی ﴿۴۶﴾

۴۶۔ فرمایا: آپ دونوں خوف نہ کریں میں آپ دونوں کے ساتھ ہوں اور (دونوں کی بات) سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔

تشریح کلمات

یَّفۡرُطَ:

( ف ر ط ) فرط کے معنی قصداً آگے بڑھ جانے کے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے: اَنَا فَرَطْکُمْ عَلَی الْحَوْضِ ۔ (مستدرک الوسائل ۲: ۳۹۸) میں حوض (کوثر) پر تمہارا پیشرو ہوں۔ اس آیت میں فرط حد سے آگے بڑھ جانے یعنی زیادتی کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

اِنَّنَا نَخَافُ: میں خوف، ذاتی اور جانی خوف نہیں ہے کیونکہ اللہ کا وعدہ ہو چکا ہے:

وَ نَجۡعَلُ لَکُمَا سُلۡطٰنًا فَلَا یَصِلُوۡنَ اِلَیۡکُمَا ۔۔۔۔ ( ۲۸ قصص: ۳۵)

اور ہم آپ دونوں کو غلبہ دیں گے اور ہماری نشانیوں (معجزات) کی وجہ سے وہ آپ تک نہیں پہنچ پائیں گے۔

بلکہ یہاں خوف، دعوت کی کامیابی اور پیشرفت کے بارے میں ہے کہ کہیں دعوت کی راہ میں فرعون کی زیادتی اور سرکشی حائل نہ ہو جائے۔

قَالَ لَا تَخَافَاۤ: خوف نہ کر۔ جس ذات نے اس دعوت کا حکم دیا ہے وہ تم دونوں سے غائب نہیں ہے۔

اِنَّنِیۡ مَعَکُمَاۤ: تم دونوں کے ساتھ ہوں۔ میری حمایت اور نصرت تم دونوں کے ساتھ ہے۔

اَسۡمَعُ وَ اَرٰی: جو باتیں کی جاتی ہیں ان کو سنتا ہوں اور جو قدم اٹھایا جاتا ہے اسے دیکھتا ہوں۔ یہ ہے معیت کی تفصیل و تاکید اور مزید وضاحت۔

اہم نکات

۱۔ اپنی مشکلات کو اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے۔

۲۔ جو اللہ کے لیے کام کرتا ہے اللہ اسے رسوا نہیں کرتا۔

۳۔ جو اپنے آقا کے لیے خود آقا کے سامنے کام کر رہا ہو اسے لطف آتا ہے۔


آیات 45 - 46