آیات 42 - 44
 

اِذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ اَخُوۡکَ بِاٰیٰتِیۡ وَ لَا تَنِیَا فِیۡ ذِکۡرِیۡ ﴿ۚ۴۲﴾

۴۲۔ لہٰذا آپ اور آپ کا بھائی میری آیات لے کر جائیں اور دونوں میری یاد میں سستی نہ کرنا۔

اِذۡہَبَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿ۚۖ۴۳﴾

۴۳۔ دونوں فرعون کے پاس جائیں کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔

فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوۡ یَخۡشٰی﴿۴۴﴾

۴۴۔ پس دونوں اس سے نرم لہجے میں بات کرنا شاید وہ نصیحت مان لے یا ڈر جائے۔

تفسیر آیات

حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو اللہ نے اپنے معجزاتی اسلحہ سے مسلح کرنے کے بعد فرمایا: میرے ان معجزات کو فرعون کے پاس لے جاؤ۔

وَ لَا تَنِیَا فِیۡ ذِکۡرِیۡ: ذکر خدا کی طاقت سے کبھی بھی غافل نہ ہونا۔ اگرچہ معجزات موسیٰ عظیم تھے تاہم اس کی پشت پر ذکر خدا اس سے زیادہ عظیم طاقت ہے۔

فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا: اگرچہ فرعون سرکش ہو گیا ہے تاہم گفتگو میں پھر بھی نرمی ہو کیونکہ انداز کلام میں اگر شیرینی نہیں ہے تو مضمون کلام خواہ کتنا ہی منطقی اور معقول کیوں نہ ہو کلام موثر واقع نہیں ہوتا۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: اِنَّہٗ طَغٰی فرعون سرکش ہو گیا ہے لیکن موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے لیے نرم لہجے میں بات کرنے کا حکم ہے۔ یعنی وہ اگرچہ سرکش ہو گیا ہے مگر اسے سرکش کہہ کر خطاب نہیں کرنا۔

اہم نکات

۱۔ دشمن کے مقابلے کے وقت ذکر خدا سب سے بڑی طاقت ہے: وَ لَا تَنِیَا فِیۡ ذِکۡرِیۡ ۔۔۔۔

۲۔ انداز کلام خود کلام سے زیادہ مؤثر ہے۔

۳۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی تبلیغ کے لیے بھی وسائل استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔


آیات 42 - 44