آیات 37 - 40
 

وَ لَقَدۡ مَنَنَّا عَلَیۡکَ مَرَّۃً اُخۡرٰۤی ﴿ۙ۳۷﴾

۳۷۔ اور بتحقیق ہم نے ایک مرتبہ پھر آپ پر احسان کیا۔

اِذۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّکَ مَا یُوۡحٰۤی ﴿ۙ۳۸﴾

۳۸۔ جب ہم نے آپ کی والدہ کی طرف اس بات کا الہام کیا جو بات الہام کے ذریعے کی جانا تھی۔

اَنِ اقۡذِفِیۡہِ فِی التَّابُوۡتِ فَاقۡذِفِیۡہِ فِی الۡیَمِّ فَلۡیُلۡقِہِ الۡیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَاۡخُذۡہُ عَدُوٌّ لِّیۡ وَ عَدُوٌّ لَّہٗ ؕ وَ اَلۡقَیۡتُ عَلَیۡکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیۡ ۬ۚ وَ لِتُصۡنَعَ عَلٰی عَیۡنِیۡ ﴿ۘ۳۹﴾

۳۹۔ (وہ یہ) کہ اس (بچے) کو صندوق میں رکھ دیں پھر اس (صندوق) کو دریا میں ڈال دیں تو دریا اسے ساحل پر ڈال دے گا (تو) میرا اور اس کا دشمن اسے اٹھا لے گا اور میں نے آپ پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی تاکہ آپ میرے سامنے پرورش پائیں۔

اِذۡ تَمۡشِیۡۤ اُخۡتُکَ فَتَقُوۡلُ ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی مَنۡ یَّکۡفُلُہٗ ؕ فَرَجَعۡنٰکَ اِلٰۤی اُمِّکَ کَیۡ تَقَرَّ عَیۡنُہَا وَ لَا تَحۡزَنَ ۬ؕ وَ قَتَلۡتَ نَفۡسًا فَنَجَّیۡنٰکَ مِنَ الۡغَمِّ وَ فَتَنّٰکَ فُتُوۡنًا ۬۟ فَلَبِثۡتَ سِنِیۡنَ فِیۡۤ اَہۡلِ مَدۡیَنَ ۬ۙ ثُمَّ جِئۡتَ عَلٰی قَدَرٍ یّٰمُوۡسٰی﴿۴۰﴾

۴۰۔ (وہ وقت یاد کرو) جب آپ کی بہن (فرعون کے پاس) گئیں اور کہنے لگیں: کیا میں تمہیں ایسا شخص بتا دوں جو اس بچے کی پرورش کرے؟ اس طرح ہم نے آپ کو آپ کی ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ ان کی آنکھ ٹھنڈی ہو جائے اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور آپ نے ایک شخص کو قتل کیا پس ہم نے آپ کو غم سے نجات دی اور ہم نے آپ کی خوب آزمائش کی، پھر سالوں تک آپ مدین والوں کے ہاں مقیم رہے پھر اے موسیٰ! اب عین مقرر وقت پر آگئے ہیں۔

تفسیر آیات

اس زمانے میں کہانت کا دور دورہ تھا۔ کاہنوں نے فرعون کو بتایا کہ تیری حکومت کا زوال بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ایک بچے کے ہاتھ ہو گا۔ فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیلیوں میں جہاں بچہ پیدا ہو اسے ہلاک کر دیا جائے۔ انہی دنوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے مادر موسیٰ کے دل میں بذریعہ الہام یہ بات ڈال دی کہ بچے کو ایک تابوت میں رکھ کر دریائے نیل میں بہا دیا جائے۔ دریائے نیل فرعون کے قصر کے نیچے سے گزرتا ہے۔ جب تابوت قصر کے پاس سے گزرے گا تو لوگوں کی اس صندوق (تابوت) پر نظر پڑے گی، بچے کو نکال لیا جائے گا۔ خوب صورت بچہ دیکھ کر وہ اسے نہیں ماریں گے بلکہ اسے اپنا بیٹا بنا لیں گے چونکہ فرعون بے اولاد تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ یہ بچہ اپنی ماں کے پاس واپس پہنچا دے گا۔

چنانچہ مادر موسیٰ نے ایسے ہی کیا۔ جب بچے کو دریائے نیل کے حوالے کر دیا تو مادر موسیٰ نے اپنی ایک بیٹی (موسیٰ کی بہن) کو تجسس کے لیے بھیجا۔ موسیٰ علیہ السلام کی بہن قصر فرعون کے گرد چکر لگاتی رہی۔ فرعون کا بندہ بچے کو دودھ پلانے والی دائی کی تلاش میں نکلا تو ہارون علیہ السلام کی بہن نے کہا: کیا میں ایک ایسے خاندان کی نشاندہی کروں جو اس بچے کو دودھ پلائے۔ اس طرح بچہ اپنی ماں کی گود میں واپس آگیا۔

اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّکَ: مادر موسیٰ کی طرف جو وحی آئی تھی وہ نبوتی وحی نہ تھی بلکہ اس قسم کی وحی کو الہام کہتے ہیں۔ الہام کسی کے دل میں کوئی بات ڈالنے کو کہتے ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مقدمہ تفسیر ہذا صفحہ ۳۷۔

فَلۡیُلۡقِہِ الۡیَمُّ بِالسَّاحِلِ: فلیلق امر کا صیغہ ہے اس لیے اس جملے کا لفظی ترجمہ تو اس طرح ہونا چاہیے: ’’دریا کو چاہیے کہ وہ اس (موسیٰ) کو ساحل پر ڈال دے‘‘ لیکن اس امر تکوینی میں وقوع پذیری یقینی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ’’دریا اسے ساحل پر ڈال دے گا۔‘‘ اس پر قرینہ بعد کے جملے میں یَاۡخُذۡہُ ہے۔

یَاۡخُذۡہُ عَدُوٌّ لِّیۡ وَ عَدُوٌّ لَّہٗ: میرا اور اس (موسیٰ علیہ السلام ) کا دشمن سے مراد فرعون ہے۔

وَ اَلۡقَیۡتُ عَلَیۡکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیۡ: اللہ کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نہایت خوبصورت تھے۔ جسے دیکھتے ہی دل میں محبت آ جاتی۔ چنانچہ یہی ہوا۔ فرعون کے گھر میں سب اسے چاہنے لگے۔

وَ لِتُصۡنَعَ عَلٰی عَیۡنِیۡ: تاکہ تو میرے سامنے پرورش پائے۔ وَ لِتُصۡنَعَ میں الصنع کے معنی پرورش کے ہیں۔ مجمع البحرین میں مادہ ( ص ن ع ) میں آیا ہے:

وَ لِتُصۡنَعَ عَلٰی عَیۡنِیۡ: ای تربی وتغذ بمرأی منی ۔

تاکہ تو میرے سامنے پرورش پائے اور غذا حاصل کرے۔

اسی معنی میں ناحیہ کی حدیث:

ونحن صنائع ربنا و الخلق بعد صنائعنا ۔۔۔۔ (لاحتجاج ۲: ۲۴۶۶)

ہم اپنے پروردگار کے پرورش یافتہ ہیں اور مخلوق ہماری پرورش یافتہ ہے۔

نہج البلاغۃ میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے فرمان کے یہی معنی ہیں جہاں آپؑ نے فرمایا:

فانا صنائع ربنا و الناس بعد صنائع لنا ۔۔۔۔ (نہج البلاغہ۔مکتوب: ۲۸ ترجمہ از مفتی جعفر حسینؒ)

ہم وہ ہیں جو براہ راست اللہ سے نعمتیں لے کر پروان چڑھے ہیں اور دوسرے ہمارے احسان کے پروردہ ہیں۔

اس کے علاوہ الصنیعۃ احسان کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے:

المن یھدم الصنیعۃ ۔ (۳ الکافی ۴: ۲۲)

جتانے سے احسان برباد ہو جاتا ہے۔

فَرَجَعۡنٰکَ اِلٰۤی اُمِّکَ: ماں کی مامتا دوبارہ واپس دلانا ایک عظیم احسان ہے۔

کَیۡ تَقَرَّ عَیۡنُہَا وَ لَا تَحۡزَنَ: ماں کو اس کی آنکھوں ٹھنڈک واپس دلانا بھی ایک عظیم احسان ہے۔

وَ قَتَلۡتَ نَفۡسًا: قبطی کے قتل کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی حکومت سے خوف لاحق تھا۔ اس سے اللہ نے نجات دلائی۔ پھر مدین میں چند سال گزارنے کے بعد آج اس جگہ پر ہو۔

ثُمَّ جِئۡتَ عَلٰی قَدَرٍ یّٰمُوۡسٰی: جو دن قدرت نے تیری رسالت کے لیے متعین کیا تھا اسی معین وقت میں تم یہاں آ گئے ہو اے موسیٰ۔

اہم نکات

۱۔ نیک مقاصد کے لیے فرعون جیسے طاغوتوں سے بھی کام لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۲۔ وقت کے سب سے بڑے اولو العزم پیغمبر وقت کے سب سے بڑے طاغوت کے گھر میں پرورش پا رہے ہیں۔


آیات 37 - 40