آیات 33 - 34
 

ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَاۡتِیَہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَوۡ یَاۡتِیَ اَمۡرُ رَبِّکَ ؕ کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ وَ مَا ظَلَمَہُمُ اللّٰہُ وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ کیا یہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ فرشتے (ان کی جان کنی کے لیے) ان کے پاس آئیں یا آپ کے رب کا فیصلہ آئے؟ ان سے پہلوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا، اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں۔

فَاَصَابَہُمۡ سَیِّاٰتُ مَا عَمِلُوۡا وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿٪۳۴﴾

۳۴۔ آخرکار انہیں ان کے برے اعمال کی سزائیں ملیں اور جس چیز کا یہ لوگ مذاق اڑاتے تھے اسی نے انہیں گھیر لیا۔

تفسیر آیات

۱۔ ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ: اس دین توحید کو سمجھانے کا جو بھی طریقہ ہو سکتا تھا، وہ اختیار کیا گیا۔ منطق میں کمی ہے نہ استدلال میں نقص، نہ ہی حجت و برہان میں ضعف ہے۔ یہ لوگ پھر کس چیز کے انتظار میں ہیں؟ کیا یہ فرشتہ موت کے انتظار میں ہیں کہ حالت نزع میں حقیقت حال ان پر منکشف ہو جائے یا یہ نزول عذاب کے منتظر ہیں؟

۲۔ ذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیۡنَ: جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ ہے: دلیل و منطق کے ساتھ آیات الٰہی پیش کی جاتی ہیں ، انجام بد سے آگاہ کیا جاتا ہے اور مہلت دی جاتی ہے۔ اس کے بعد خود ان کے اپنے ظلم کی پاداش میں ان کو تباہ کیا جاتا ہے۔

۳۔ فَاَصَابَہُمۡ سَیِّاٰتُ: آخر کار ان کو ان کے اپنے برے اعمال نے گرفت میں لے لیا اور جن باتوں کا وہ مذاق اڑاتے تھے انہی باتوں نے انہیں اس طرح اپنے حصار میں لے لیا کہ اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ رہا۔

اہم نکات

۱۔ کافر لوگ جس چیز کا مذاق اڑاتے تھے، وہ خود اسی کا شکار ہو گئے۔


آیات 33 - 34