آیت 35
 

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا عَبَدۡنَا مِنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ شَیۡءٍ نَّحۡنُ وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمۡنَا مِنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۚ فَہَلۡ عَلَی الرُّسُلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اور مشرکین کہتے ہیں: اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا اس کے علاوہ کسی اور چیز کی پرستش نہ کرتے اور نہ اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام قرار دیتے، ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا، تو کیا رسولوں پر واضح انداز میں تبلیغ کے سوا کوئی اور ذمہ داری ہے؟

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا: مشرکین اپنے شرک کے جواز کے لیے یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ اگر اللہ کی مشیت یہ ہوتی کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی پوجا نہ کریں تو غیر اللہ کی پوجا کرنا ہمارے لیے ممکن ہی نہ ہوتا۔

واضح رہے اللہ تعالیٰ کے دو ارادے ہیں: ارادۂ تخلیق اور ارادۂ تشریع۔ عالم خلق وایجاد میں صرف اللہ کا ارادہ نافذ ہے:

مَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ﴿﴾ (۳۶ یٰسٓن : ۸۲)

جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو بس اس کا امر یہ ہوتا ہے کہ اسے یہ کہے: ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے۔

ارادۂ تخلیق میں اللہ کے ارادے کے علاوہ کسی اور کا ارادہ نہیں چلتا۔ ارادہ تشریع میں ایسا نہیں ہے کہ اللہ جو حکم دے اس پر ساری دنیا عمل کرے۔ ارادۂ تشریع میں جب اللہ فرماتا ہے: وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ تو کوئی نماز پڑھتا ہے اور کوئی نہیں پڑھتا۔ یہ اس لیے کہ انسان کو اللہ نے اختیار و انتخاب کے آزادی دی ہے کیونکہ آزادی کے بغیر آزمائش، مکلف اور سزا وجزا کا قانون بنانا ممکن نہیں ہے۔

اس جگہ ایک علمی المیہ یہ ہوا کہ ایک اسلامی مکتب نے ارادۂ تکوینی اور تشریعی میں امتیاز نہیں کیا، نظریہ جبر قائم کیا اور کہا نماز پڑھنا بھی اللہ کی طرف سے ہے اور نہ پڑھنا بھی اللہ کی طرف سے ہے اور کہتے ہیں: اللہ کی مملکت میں صرف اللہ کا ارادہ نافذ ہے۔ غیر خدا کا ارادہ نافذ نہیں ہے۔ ارادہ تکوینی کی بات، ارادہ تشریع میں بھی لاتے ہیں۔ مشرکین بھی عیناً نظریہ جبر سے اپنے شرک کے جواز پر استدلال کرتے ہیں اور انسان کو مجبور تصور کرتے ہیں۔ جب کہ اپنے ارادے اور انتخاب میں آزادی، انسان کی انسانیت کی بنیادی اینٹ ہے جس کے بغیر انسان، انسان نہیں رہتے، کوئی اور مخلوق، جیسے گدھے اور جمادات و نباتات کی طرح ہو جاتے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۃ الانعام آیت ۱۴۸۔

۲۔ فَہَلۡ عَلَی الرُّسُلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ: مشرکین کے نظریہ جبر کے جواب میں فرمایا: رسولوں کے ذریعے اللہ اپنا ارادہ صرف پہنچانے کا حکم دیتا ہے۔ اس پر عمل کرنا، نہ کرنا، خود مکلف سے مربوط ہے۔ رسول سے مربوط نہیں ہے کہ وہ ان پر طاقت اور جبر استعمال کرے اور ہر صورت میں ایمان لے آئیں۔

اہم نکات

۱۔ انسان کو عقیدہ اور عمل میں خود مختار چھوڑا ہے: فَہَلۡ عَلَی الرُّسُلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ ۔۔۔۔

۲۔ بندوں کے عقیدہ و عمل میں مشیت تشریعی نافذ ہے، تکوینی نہیں: اِلَّا الۡبَلٰغُ ۔۔۔۔


آیت 35