آیات 45 - 48
 

اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ ﴿ؕ۴۵﴾

۴۵۔ (ادھر) اہل تقویٰ یقینا باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔

اُدۡخُلُوۡہَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِیۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ (ان سے کہا جائے گا) سلامتی و امن کے ساتھ ان میں داخل ہو جاؤ۔

وَ نَزَعۡنَا مَا فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ مِّنۡ غِلٍّ اِخۡوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور ان کے دلوں میں جو کینہ ہو گا ہم نکال دیں گے وہ برادرانہ طور پر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔

لَا یَمَسُّہُمۡ فِیۡہَا نَصَبٌ وَّ مَا ہُمۡ مِّنۡہَا بِمُخۡرَجِیۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ جہاں نہ انہیں کوئی تکلیف پہنچے گی نہ انہیں وہاں سے نکالا جائے گا۔

تشریح کلمات

غِلٍّ:

( غ ل ل ) کینہ اور پوشیدہ دشمنی کے معنوں میں ہے۔

نَصَبٌ:

( ن ص ب ) کے معنی تکلیف و مشقت کے ہیں۔

مُّتَقٰبِلِیۡنَ:

( و ق ی ) تقویٰ کا ترجمہ عموماً پرہیز گار، اگر فعل امر کی شکل میں آئے تو ’’خوف کرو‘‘ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تقویٰ کا لازمہ ضرور ہے لیکن ترجمہ نہیں ہے۔ یہ لفظ مادہ، و ق ی وقی سے ہے جس کے معنی محافظت اور بچانے کے ہیں۔ وَ وَقٰہُمۡ عَذَابَ الۡجَحِیۡمِ (۴۴ دخان: ۵۶) اللہ نے ان کو جہنم کے عذاب سے بچایا۔ لہٰذا التقویٰ کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے اسے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو۔

تفسیر آیات

گزشتہ تقویٰ کی لغوی تشریح کی روشنی میں تقویٰ کا شرعی اصطلاح میں مفہوم یہ بنتا ہے: اسلام نے زندگی کے لیے جو اصول متعین کیے ہیں اس کے دائرے میں رہنا اور جن چیزوں کو گناہ اور پلیدی قرار دیا ہے ان سے اپنے آپ کو بچانا۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

عِبَادَ اللہ اِنَّ تَقْوَی اﷲِ حَمَتْ اَوْلِیَائَ اللّٰہِ مَحَارِمَہُ وَ اَلْزَمَتْ قُلُوبُہُمْ مَخَافَتَہٗ ۔۔ (نہج البلاغۃ۔ خطبہ ۱۱۲)

اللہ کے بندو! تقویٰ ہی نے اللہ کے دوستوں کو منہیات سے بچایا ہے اور ان کے دلوں میں خوف پیدا کیا ہے۔۔۔۔

لہٰذا تقویٰ اپنے آپ کے لیے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اگر ایک انسان نے انسانی قدروں کے ساتھ زندگی گزارناہے تو یہ تقویٰ کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ تقویٰ کے بغیر زندگی کا مطلب بے اصولی اور عملی انحراف سے عدم تحفظ ہے۔

اس آیہ شریفہ میں تقویٰ والوں کے لیے فرمایا:

جَنّٰتٍ وہ جنت میں داخل ہوں گے۔

ii۔ وَّ عُیُوۡنٍ جہاں چشمے ہوں گے۔

iii۔ بِسَلٰمٍ سلامتی حاصل ہو گی۔

iv۔ اٰمِنِیۡنَ امن و امان کی زندگی ملے گی۔

وَ نَزَعۡنَا ان کے دل ہر قسم کے کینہ و حسد سے پاک ہوں گے۔ کینہ و حسد والے داخلی سکون سے محروم ہوتے ہیں۔ جنت میں کامل سکون میسر آئے گا اس لیے قلبی اور نفسیاتی سکون کے لیے کینہ و حسد جیسی خصلتوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔

vi۔ لَا یَمَسُّہُمۡ فِیۡہَا نَصَبٌ یہاں انہیں کسی قسم کی تکلیف و مشقت نہ ہو گی۔ اس دائمی زندگی سے تنگ ہوں گے نہ ہی وسائل زندگی کی فراہمی میں کوئی مشقت اٹھانا پرے گی۔

Vii۔ وَّ مَا ہُمۡ مِّنۡہَا بِمُخۡرَجِیۡنَ: ان کو دائمی زندگی ملے گی جہاں سے نکل جانے کا خیال ان کو نہیں ستائے گا۔

اہم نکات

۱۔دلوں کا کینہ و حسد سے پاک ہونا اور پاک دل دوستوں کی محفل میسر آنا جنت کی نعمتوں میں سے ہے۔


آیات 45 - 48