آیت 28
 

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَطۡمَئِنُّ قُلُوۡبُہُمۡ بِذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ﴿ؕ۲۸﴾

۲۸۔ (یہ لوگ ہیں) جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دل یادِ خدا سے مطمئن ہو جاتے ہیں یاد رکھو! یاد خدا سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔

تفسیر آیات

آیت وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ اَنَابَ کی تفصیل ہے۔ اللہ کی طرف رجوع کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو ایمان لے آتے اور ذکر خدا سے اطمینان قلب حاصل کرتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ذکر خدا سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے اور وہ ہر بات پر معجزے کامطالبہ نہیں کرتے۔

انسان کے ظاہری وجود میں ایک اور انسان ہے جسے ضمیر، فطرت، قلب، وجدان اور جبلت کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ جس طرح ظاہری انسان کے تقاضے ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنے سے اسے سکون و اطمینان ملتا ہے، اسی طرح داخلی انسان کے بھی تقاضے ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنے سے اسے سکون ملتا ہے۔ جس طرح مچھلی کو پانی میں سکون ملتا ہے چونکہ پانی اس کے فطری تقاضوں کے عین مطابق ہے۔

کبھی ظاہری انسان اپنے باطنی انسان، ضمیر کے تقاضوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرتا ہے تو باطنی انسان، ضمیر، وجدان اس ظاہری انسان کی سرزنش کرتا ہے اور ضمیر و وجدان کی عدالت میں پیش کر کے اس کا محاسبہ کرتا ہے جسے ہم ضمیر کی ملامت کہتے ہیں۔ اس صورت میں ان انسانوں میں داخلی جنگ چھڑ جاتی ہے اور انسان اضطراب و بے سکونی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر یہ ظاہری انسان اپنے داخلی انسان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے، مثلاً ذکر و عبادت الٰہی میں مصروف ہو جاتا ہے تو اس سے ظاہری و باطنی انسان میں ہم آہنگی اور باہمی امن و آشتی برقرار رہتی ہے۔ اسے سکون و اطمینان کہتے ہیں۔

اس لیے ہر وہ رابطہ جو غیر اللہ کے ساتھ قائم ہوتا ہے، انسان کو امن و سکون نہیں دے سکتا بلکہ اس کی بے سکونی میں اضافہ کرتا ہے۔ مثلاً انسان مال دولت کی فراوانی میں اپنا سکون تلاش کرتا ہے لیکن مال و دولت میں جس قدر اضافہ ہوتا ہے، انسان کی بے سکونی میں بھی اسی قدر اضافہ ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان کو کسی محدود سے سکون نہیں ملتا جب تک اللہ کی لامحدود ذات سے رابطہ نہ کرے۔

ذکر کی تفسیر محبت سے ہوئی ہے۔ اللہ کا ذکر اس وقت ہو گا جب اللہ سے محبت ہو گی۔ چنانچہ الدرالمنثور ۴: ۵۸ میں آیا ہے: ابن مردویہ نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ؐنے فرمایا:

ذاک من احب اللّٰہ تعالیٰ و رسولہ و احب اہل بیتی صادقاً غیر کاذب و احب المؤمنین شاھداً الا بذکر اللّٰہ یتحابون ۔

اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول اور میرے اہل بیت سے سچی محبت کریں اور غیبت و حضور میں تمام مؤمنین سے بھی محبت کریں۔ دیکھو اللہ ہی کے ذکر کے ذریعے یہ ایک دوسرے سے محبت کریں گے۔

اس حدیث میں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ جو ہستیاں اللہ کے ذکر کے لیے وسیلہ ہیں وہ بھی ذکر اللہ میں شامل ہیں۔

اعتراض: اس آیت میں فرمایا کہ ذکر خدا سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا: ذکر خدا سے مؤمنین کے دل خوف زدہ ہو جاتے ہیں:

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ۔۔۔۔ (۸ انفال: ۲)

مؤمن تو صرف وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ جاتے ہیں۔۔۔۔

تو کیا ان آیات میں تضاد نہیں ہے؟

جواب: جی ہاں ذکر خدا کے وقت مؤمن کو اپنی لغزشیں اور کوتاہیاں نظر آتی ہیں تو دل کانپ جاتے ہیں۔ یہ خوف انسان میں اس وقت آتا ہے جب اس کا ضمیر اور وجدان بیدار ہو اور یہ تعمیری خوف ہے۔ اس خوف کی وجہ سے دوسرے تمام خوف سے نجات مل جاتی ہے اور تعمیری خوف پروان چڑھتا ہے۔ اس خوف کی دوسری وجہ عظمت الٰہی کا تصور ہے۔ اللہ کی معرفت سے سرشار لوگ جب اللہ کی بارگاہ میں برائے عبادت حاضر ہوتے ہیں تو عظمت الٰہی کی وجہ سے لرزہ براندام ہوتے ہیں۔ اس خوف سے سکون ملتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خوف خدا نہ رکھنے والے بے سکون ہوتے ہیں، ہر جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اورمضطرب رہتے ہیں۔ جب کہ خوف خدا سے گریہ کرنے والے سکون کی نیند سوتے ہیں۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت ہے:

و من اعظم النعم علینا جریان ذکرک علی السنتنا ۔۔۔۔ ( بحار ۹۱: ۱۵۱۔ مناجاۃ الذاکرین۔ صحیفہ سجادیہ)

تیری عظیم نعمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ تیرا ذکر ہماری زبانوں پر جاری ہے۔

وَ اَنَا مَعْ عَبْدِی اِذَا ذَکَرَنِی فَمَنْ ذَکَرَنِی فِی نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہُ فِی نَفْسِی وَ مَنْ ذَکَرَنِی فِی مَلَائٍ ذَکَرْتُہُ فِی مَلَائٍ خَیْرٍ مِنْہُ ۔۔۔۔ ( مستدرک الوسائل ۵: ۲۹۸)

جب میرا بندہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں۔ پس جس نے اپنے نفس میں مجھے یاد کیا تو میں اسے اپنے نفس میں یاد کروں گا اور جس نے برملا مجھے یاد کیا تو میں اس سے بہتر اسے برملا یاد کروں گا۔

اہم نکات

۱۔ قلب و ضمیر کو صرف ذکر خدا سے سکون و اطمینان ملتا ہے۔


آیت 28