آیت 48
 

قِیۡلَ یٰنُوۡحُ اہۡبِطۡ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَکٰتٍ عَلَیۡکَ وَ عَلٰۤی اُمَمٍ مِّمَّنۡ مَّعَکَ ؕ وَ اُمَمٌ سَنُمَتِّعُہُمۡ ثُمَّ یَمَسُّہُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۴۸﴾

۴۸۔ کہا گیا : اے نوحؑ! اترو ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو آپ پر اور ان جماعتوں پر ہیں جو آپ کے ساتھ ہیں اور کچھ جماعتیں ایسی بھی ہوں گی جنہیں ہم کچھ مدت زندگی کا موقع بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ قِيْلَ يٰنُوْحُ اہْبِطْ: یہ حکم پہاڑ سے میدانی علاقوں میں اترنے اور نئی زندگی کا آغاز کرنے کا ہے جس کے بعد ایک نئی نسل شروع ہونے والی ہے۔

۲۔ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَکٰتٍ: طوفان کے بعد زمین اور فضا مکدر ہو چکی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے کشتی کو ایسی جگہ پر ٹھہرایا جو زرخیز تھی۔ جس میں امن و سلامتی تھی۔

۳۔ وَ عَلٰۤی اُمَمٍ مِّمَّنۡ مَّعَکَ: اور ان امتوں کو بھی سلامتی عنایت ہو گی جو آپ کی معیت میں موجود لوگوں کی نسل سے چلنے والی ہیں۔ اصل میں وعلی امم من الذین معک ہے۔

۴۔ وَ اُمَمٌ سَنُمَتِّعُہُمۡ: آنے والی نسلوں میں دو جماعتوں کا ذکر ہے۔ ایک وہ جو حضرت نوح علیہ السلام کی معیت میں ہے۔ اس جماعت سے ایمانی معیت کے ساتھ آنے والی نسلوں پر اللہ کی طرف سے امن و سلامتی اور برکتیں ہوں گی۔ اس گروہ میں قیامت تک کے اہل ایمان شامل ہیں۔ دوسری جماعت وہ ہے جو صرف دنیاوی زندگی سے بہرہ ور ہو گی۔ یہاں کے مال و متاع سے لطف اندوز ہونے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو عذاب الٰہی کا سامنا کرنا ہو گا۔

ایک بار اس سرزمین کو کفر و عصیان سے پاک کرنے کے بعد بھی حق و باطل کی جنگ جاری رہے گی۔ نور و ظلمت کا آمنا سامنا ہوتا رہے گا۔ حق کو باطل کے مقابلے میں مقام ملتا ہے۔ کسی ظلمت کے وجود کی صورت میں نور کی قدر دانی ہوتی ہے۔ انسان کو طوفان کے بعد بھی اسی خودمختاری اور آزادی کے میدان میں چھوڑ کر پرکھنا ہے جسکا لازمی نتیجہ یہی نکلے گا کہ کچھ لوگ حق کا راستہ منتخب کریں گے اور کچھ باطل کا۔ فریق فی الجنۃ وفریق فی السعیر ۔

اہم نکات

۱۔ امن و برکات ان قوموں پر ہیں جو انبیاء کے ساتھ ہیں : اُمَمٍ مِّمَّنۡ مَّعَکَ ۔۔۔۔


آیت 48