آیات 45 - 47
 

وَ نَادٰی نُوۡحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابۡنِیۡ مِنۡ اَہۡلِیۡ وَ اِنَّ وَعۡدَکَ الۡحَقُّ وَ اَنۡتَ اَحۡکَمُ الۡحٰکِمِیۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔ اور نوح نے اپنے رب کو پکار کر عرض کی: اے میرے رب! میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور یقینا تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنۡ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ٭۫ۖ فَلَا تَسۡـَٔلۡنِ مَا لَـیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنِّیۡۤ اَعِظُکَ اَنۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ فرمایا: اے نوح! بے شک یہ آپ کے گھر والوں میں سے نہیں ہے، یہ غیر صالح عمل ہے لہٰذا جس چیز کا آپ کو علم نہیں اس کی مجھ سے درخواست نہ کریں، میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ مبادا نادانوں میں سے ہو جائیں۔

قَالَ رَبِّ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِکَ اَنۡ اَسۡـَٔلَکَ مَا لَـیۡسَ لِیۡ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ وَ اِلَّا تَغۡفِرۡ لِیۡ وَ تَرۡحَمۡنِیۡۤ اَکُنۡ مِّنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔نوح نے کہا: میرے رب میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ ایسی چیز کا تجھ سے سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں ہے اور اگر تو مجھے معاف نہیں کرے گا اور مجھ پر رحم نہیں کرے گا تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ ابۡنِیۡ مِنۡ اَہۡلِیۡ: جب نوح علیہ السلام اور ان کے بیٹے کے درمیان موج حائل ہو گئی، اس وقت اضطراری حالت میں پکارا ہو گا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے یہ موقف اختیار کیا کہ میرا بیٹا میرے گھر والوں میں شامل ہے اور تیرا وعدہ ہے کہ گھر والوں کو نجات مل جائے گی۔

۲۔ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنۡ اَہۡلِکَ: اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا: تو نہیں جانتا کہ تیرا بیٹا تیرے گھر والوں میں شامل ہی نہیں ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اس مسئلہ میں یہ نکتہ نہیں جانتے تھے یا وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ خاندانی رشتے کے لیے نسبی رشتہ کافی نہیں ہے ایمانی رشتہ ضروری ہے یا یہ نہیں جانتے تھے کہ بیٹا فی الواقع مؤمن نہیں ہے۔

ایک اولوالعزم نبی کے لیے ناممکن ہے کہ وہ پہلے نکتہ کو نہ جانتے ہوں لہٰذا لازماً حضرت نوح علیہ السلام اس بات کو نہیں جانتے تھے کہ بیٹا مومن نہیں ہے ورنہ خود حضرت نوح علیہ السلام نے درخواست کی تھی:

وَ قَالَ نُوۡحٌ رَّبِّ لَا تَذَرۡ عَلَی الۡاَرۡضِ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا﴿﴾ (۷۱ نوح: ۲۶)

اور نوح نے کہا: پروردگارا! روئے زمین پر بسنے والے کفار میں سے ایک کو بھی باقی نہ چھوڑ۔

اب نوح علیہ السلام یہ کیسے درخواست کر سکتے ہیں کہ میرے کافر بیٹے کو چھوڑ دیں۔

حضرت نوح علیہ السلام کو جس نادانی پر سرزنش کی گئی ہے وہ یہ ہو کہ بیٹے کا کشتی پر سوار ہونے سے انکار معصیت نہیں کفر ہے یا یہ کہ بیٹے کی منافقت کا حضرت نوح علیہ السلام کو علم نہ ہو۔ واللّٰہ اعلم بالصواب

۳۔ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ: نوح علیہ السلام کے بیٹے کی ذات کو غیر صالح عمل کہنا اس بات کی تاکید کے لیے ہے کہ اس کی ذات غیر صالح عمل سے عبارت ہے۔ اگر یہ تاکید مطلوب نہ ہوتی تو انہ ذوعمل غیر صالح کہتے یا انہ یعمل عملا غیر صالح فرماتے۔

نوح علیہ السلام کے بیٹے کے واقعہ میں ان نظریات کی نفی ہے جو نژادی بنیاد پر اپنے آپ کو اللہ کی پسندیدہ قوم تصور کرتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کا نظریہ ہے:

نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۱۸)

ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔۔۔۔

مکہ والے بھی اسی قسم کا نظریہ رکھتے تھے کہ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ ہم پر اللہ کا غضب نازل نہ ہو گا۔

جب غیر اسلامی قدریں رائج ہو جاتی ہیں تو عقیدے، عمل صالح، اخلاقی و انسانی قدروں کی جگہ خون و نسب، زمین، وطن، کبھی رنگ و زبان، کبھی قوم و قبیلے کا جاہلیتی رشتہ کارگر ہو جاتا ہے۔ یہ رشتے انسانی ارادے و اختیار سے قائم نہیں ہوتے۔ انسان اپنے ارادے سے نہ خون و نسب کا انتخاب کرتا ہے، نہ زمین، وطن کا، نہ زبان و رنگ کا۔اس لیے ان رشتوں کی بنا پر دنیا و آخرت کی قسمت کا فیصلہ کرنا انسان کی خود مختاری کے خلاف ہے۔ لہٰذا فیصلہ کی بنیاد وہ چیز ہونی چاہیے جو انسان کے دائرہ اختیار میں ہو۔

اہم نکات

۱۔ ایمانی رشتہ نہ ہونے کی صورت میں خونی رشتے سے نہ شرف ملتا ہے نہ نجات: لَیۡسَ مِنۡ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ۔۔۔۔


آیات 45 - 47