آیات 84 - 86
 

وَ قَالَ مُوۡسٰی یٰقَوۡمِ اِنۡ کُنۡتُمۡ اٰمَنۡتُمۡ بِاللّٰہِ فَعَلَیۡہِ تَوَکَّلُوۡۤا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّسۡلِمِیۡنَ﴿۸۴﴾

۸۴۔اور موسیٰ نے کہا: اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر بھروسا کرو اگر تم مسلمان ہو۔

فَقَالُوۡا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلۡنَا ۚ رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَۃً لِّلۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۸۵﴾

۸۵۔ پس انہوں نے کہا:ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے، اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں کے لیے (ذریعہ) آزمائش نہ بنا۔

وَ نَجِّنَا بِرَحۡمَتِکَ مِنَ الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۸۶﴾

۸۶۔ اور اپنی رحمت سے ہمیں کافر قوم سے نجات عطا فرما۔

تفسیر آیات

۱۔ فَعَلَیۡہِ تَوَکَّلُوۡۤا: توکل اور بھروسہ، ایمان کے بعد بہت بڑی طاقت ہے، جس کے ساتھ طاغوت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اللہ پر توکل کا مطلب یہ ہے کہ اپنی سی محنت و توجہ کے بعد تمام تر امور اللہ کے سپرد کیے جائیں اور نتیجہ اسی پر چھوڑ دیا جائے۔ ظاہر ی علل و اسباب کو اگرچہ تمہیدی دخل ہے لیکن منزل مقصود تک جانے کے لیے توکل کی ضرورت ہے۔ یہاں توکل کے لیے دو باتوں کو بنیاد بنایا۔ ایک یہ کہ ایمان ہو:

اِنۡ کُنۡتُمۡ اٰمَنۡتُمۡ بِاللّٰہِ: ظاہر ہے ایمان باللہ کے بغیر توکل علی اللّٰہ کا تصور ہی نہیں ہو سکتا۔

ii۔ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّسۡلِمِیۡنَ: دوسری بات یہ کہ تسلیم کی منزل پر ہو کہ اللہ کے ہر فیصلے کو تسلیم و رضا سے لیا جائے

۲۔ فَقَالُوۡا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلۡنَا: جواب میں اہل ایمان نے کہا: ہم اللہ پر توکل اور دو چیزوں کی اللہ سے درخواست کرتے ہیں :

لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَۃً: ظالموں کو آزمانے کے لیے ہم کو ذریعہ امتحان نہ بنا۔ ایسا نہ ہو کہ قوم موسیٰ کے ظلم کی داستان ہمارے خون سے لکھی جائے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر میں روایت ہے۔ فرمایا:

قال لا تسلطھم علینا فتفتنھم بنا ۔ (تفسیر عیاشی ۲:۱۲۷ ذیل آیہ)

ان کو ہم پر مسلط نہ فرما کہ ہمارے ذریعے ان کے آزمائش ہو۔

ii۔ وَ نَجِّنَا بِرَحۡمَتِکَ: دوسری درخواست یہ ہے کہ ہم کو فرعون جیسے کافروں سے نجات مرحمت فرما۔

اہم نکات

۱۔ توکل علی اللّٰہ ایمان کا لازمی نتیجہ ہے: اِنۡ کُنۡتُمۡ اٰمَنۡتُمۡ بِاللّٰہِ فَعَلَیۡہِ تَوَکَّلُوۡۤا ۔۔۔۔


آیات 84 - 86