آیت 59
 

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ مِّنۡ رِّزۡقٍ فَجَعَلۡتُمۡ مِّنۡہُ حَرَامًا وَّ حَلٰلًا ؕ قُلۡ آٰللّٰہُ اَذِنَ لَکُمۡ اَمۡ عَلَی اللّٰہِ تَفۡتَرُوۡنَ﴿۵۹﴾

۵۹۔ کہدیجئے: مجھے بتاؤ کہ جو رزق اللہ نے تمہارے لیے نازل کیا ہے اس میں سے تم از خود کچھ کو حرام اور کچھ کو حلال ٹھہراتے ہو؟ کہدیجئے: کیا اللہ نے تمہیں (اس بات کی) اجازت دی ہے یا تم اللہ پر افترا کر رہے ہو؟

تفسیر آیات

سورہ مائدہ آیت ۱۰۳ میں اور سورہ انعام آیت ۱۳۶ میں اس بات کا ذکر آچکا کہ مشرکین کچھ جانوروں کو از خود حرام قرر دیتے تھے اور کچھ کو حلال۔ اس آیت میں مشرکین کی طرف سے قانون سازی میں مداخلت پر سرزنش کی گئی ہے کہ قانون سازی کے تحت حلال و حرام کرنے کا حق تو صرف اللہ کو حاصل ہے۔ یہ قانون جو تم لوگوں نے بنایا ہے، دو حال سے خالی نہیں ہے۔ یا تو اللہ نے تمہیں ایسا کرنے کی اجازت دی ہے، ورنہ اللہ کی طرف نسبت ہے جو کہ افتراء ہے۔

واضح رہے کہ قانون سازی کا حق، بالادستی اور حاکمیت کے مترادف ہے۔ اللہ کو حاکمیت اعلیٰ کا حق دینے کے بعد اللہ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت کرنے کا کسی کو بھی حق حاصل نہیں ہوتا۔

مشرکین اللہ کو خالق اور رازق مانتے تھے۔ اس کے باوجود وہ مقام تشریع و تقنین میں اللہ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت کرتے تھے۔

آج کے مسلمان بھی اللہ کے وجود کے معترف ہوتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اس کے باجود وہ تشریع و تقنین میں اللہ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت کرتے ہیں بلکہ اللہ کے قانون کے خلاف قانون وضع کرتے ہیں۔

آیۂ شریفہ میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ تشریع و تقنین میں اللہ کی طرف سے اذن ثابت ہونا چاہیے اور اس کا ذریعہ قرآن و سنت ہے۔ اگر یہ ثابت نہ ہو تو مداخلت فی التشریع ہے اور اللہ پر افتراء کرنے اور بہتان باندھنے کے مترادف ہے۔

قیاس و استحسان اور ذاتی رائے یقینا مَّاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ میں سے نہیں ہے۔ لہٰذا ان چیزوں کے ذریعے احکام شریعت اور حلال و حرام ثابت کرنا بھی مداخلت فی التشریع ہے، خواہ اس پر کتنا زور صرف کر دیں کہ اس میں اصل دلیل تو نصوص ہی ہوتے ہیں۔ یقینا اگر صرف نصوص پر توقف کرتے تو یہ ما اذن اللّٰہ میں شامل رہ جاتا لیکن قیاس میں محل نص کے علاوہ غیر منصوص کا حکم ذاتی رائے سے بناتے ہیں۔ مثلاً نص میں آگیا کفن تیار کرنے کے بعد میت ضایع ہو جائے تو کفن وارث کو واپس جاتا ہے۔ اس پر قیاس کرتے ہیں کہ مسجد بے مصرف ہو جائے تو واقف کو واپس جاتی ہے۔ یہاں کفن کا حکم نص میں ہے مگر مسجد کا حکم نص میں نہیں ہے۔ اجتہاد بالرائے کے ذریعے اس کا حکم نکالا ہے جو صریحاً مداخلت فی التشریع ہے اور اس مداخلت کی بنیاد کوئی شرعی دلیل یا اذن اللّٰہ نہیں ہے بلکہ بنیاد صرف یہ خیال ہے کہ کفن اور مسجد دونوں بے مصرف ہیں ، لہٰذا دونوں کا حکم ایک ہونا چاہیے۔ حالانکہ دو چیزیں ایک میں نہیں ، دس باتوں میں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود ان دونوں کا حکم ایک ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ پھر مسجد خانۂ خدا، وقف شدہ مال کا ذاتی مال، کفن پر قیاس کرنا کیا اذن خدا ہے؟ ان ہذا لشئی عجاب ۔

اہم نکات

۱۔ اجتہاد و استنباط اذن خدا کی حدود میں جائز ہے۔

۲۔ بنیادی طور پر کھانے کی ہر چیز حلال ہے مگر وہ جسے شریعت حرام قرار دے۔


آیت 59