آیت 47
 

لَوۡ خَرَجُوۡا فِیۡکُمۡ مَّا زَادُوۡکُمۡ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَا۠اَوۡضَعُوۡا خِلٰلَکُمۡ یَبۡغُوۡنَکُمُ الۡفِتۡنَۃَ ۚ وَ فِیۡکُمۡ سَمّٰعُوۡنَ لَہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے بھی تو تمہارے لیے صرف خرابی میں اضافہ کرتے اور تمہارے درمیان فتنہ کھڑا کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کرتے اور تمہارے درمیان ان کے جاسوس (اب بھی) موجود ہیں اور اللہ ظالموں کا حال خوب جانتا ہے ۔

تشریح کلمات

خَبَالًا:

( خ ب ل ) الخبل ، الخبال اس فساد یا خرابی کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو لاحق ہو کر اس میں اضطراب اور بے چینی پیدا کر دے۔ جیسے جنون۔

اَوۡضَعُوۡا:

( و ض ع ) دوڑ دھوپ، تیز رفتاری۔

تفسیر آیات

۱۔ لَوۡ خَرَجُوۡا فِیۡکُمۡ: اگر یہ منافقین اور ضعیف الایمان اسلامی لشکر میں شامل ہوتے تو عسکری نظم و ضبط میں خلل ڈالتے۔ جیسا کہ جنگ احد میں ان لوگوں نے راستے سے واپس ہو کر اسلامی لشکر میں بدنظمی پھیلائی اور جنگ حنین میں ان لوگوں اور مکہ کے طلقاء نے مل کر لشکر اسلام کو شکست سے دوچار کر دیا۔ لہٰذا درحقیقت مصلحت تو اسی میں تھی کہ یہ لوگ جنگ میں شرکت نہ کریں۔

رسول کریمؐ کی اجازت کو اجتہادی غلطی قرار دینے والے اس آیت کے ذیل میں کہتے ہیں : ثبت ہذہ الایۃ انہ مبنی علی اصل صحیح۔ (المنار ۱۰ : ۴۷۳) اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ رسولؐ کا اجتہاد ایک صحیح بنیاد پر استوار تھا کہ ان کی شرکت میں کوئی مصلحت نہ تھی۔ مگر وہ اس کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ حضورؐ کو علم نہ تھا کہ اجازت نہ دینے کی صورت میں بھی وہ نکلنے والے نہ تھے۔

جبکہ تاریخ و حدیث سے ہٹ کر صرف قرآنی مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضورؐ کو ان لوگوں کے بارے میں علم تھا۔چنانچہ سابقہ آیت میں فرمایا: وَ لَوۡ اَرَادُوا الۡخُرُوۡجَ لَاَعَدُّوۡا لَہٗ عُدَّۃً ۔۔۔۔ اگر وہ نکلنے کا ارادہ رکھتے تو اس کے لیے سامان تیار کرتے۔ یہ ایسی محسوس باتیں ہیں جو مدینہ کے ایک مختصر معاشرہ میں سب کے لیے عیاں تھیں۔ جب کہ دوسری جگہ مدینہ میں نازل ہونے والے سورۂ محمدؐمیں فرمایا: وَ لَتَعۡرِفَنَّہُمۡ فِیۡ لَحۡنِ الۡقَوۡلِ ۔۔۔۔۔۔۔ (۴۷ محمد : ۳۰) اور آپ ان لوگوں کو ان کے طرز کلام سے ضرور پہچان لیں گے۔

۲۔ وَ فِیۡکُمۡ سَمّٰعُوۡنَ لَہُمۡ: اس جملے کی دو شرحیں بیان کی جاتی ہیں : ایک یہ کہ تم میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ان منافقین کی زیادہ سنتے ہیں۔ یعنی ان کی باتوں میں آنے والے لوگ تمہارے اندر موجود ہیں۔ دوسری یہ کہ تمہارے اندر ان کے جاسوس موجود ہیں۔ یہی دوسری شرح قرین حق معلوم ہوتی ہے کیونکہ لغت اور خود قرآن میں بھی صیغہ سمّاع جاسوسی کے لیے استعمال ہوا ہے: سَمّٰعُوۡنَ لِقَوۡمٍ اٰخَرِیۡنَ ۙ لَمۡ یَاۡتُوۡکَ ۔۔۔۔۔۔۔ (۵المائدۃ:۴۱)

دشمن کی طرف سے دو اہم خطروں کو عسکری اعتبار سے اہم سمجھا جانا چاہیے:

الف: وہ ہماری صفوں میں داخل ہو کر ہمیں اندرونی خلفشار سے دو چار کرتے ہیں جنہیں آج کل کی اصطلاح میں ففتھ کالم کہتے ہیں : لَوۡ خَرَجُوۡا فِیۡکُمۡ مَّا زَادُوۡکُمۡ اِلَّا خَبَالًا ۔۔۔۔۔۔۔

ب: وہ اپنے جاسوسوں کے ذریعے ہمارے راز چراتے اور ہمارے کمزور نقطے تلاش کرتے ہیں : وَ فِیۡکُمۡ سَمّٰعُوۡنَ ۔۔۔۔


آیت 47