آیت 43
 

عَفَا اللّٰہُ عَنۡکَ ۚ لِمَ اَذِنۡتَ لَہُمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ تَعۡلَمَ الۡکٰذِبِیۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ (اے رسول) اللہ آپ کو معاف کرے آپ نے انہیں کیوں اجازت دے دی قبل اس کے کہ آپ پر واضح ہو جاتا کہ سچے کون ہیں اور آپ جھوٹوں کو جان لیتے؟

تفسیر آیات

۱۔ عَفَا اللّٰہُ عَنۡکَ: ان لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے عذریں گھڑ کر رسول اللہؐ سے جنگ میں عدم شرکت کی اجازت لی تھی۔ اس بارے میں بظاہر اجازت دینے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرزنش ہو رہی ہے لیکن فی الواقع منافقین کو فاش کرنا مقصود ہے۔ چنانچہ آیت میں ’’آپ نے کیوں اجازت دی؟‘‘ سے پہلے ’’اللہ آپ کو معاف کرے‘‘ کا ذکر آنا خود اس پر دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیب کے ساتھ یہ لہجہ سر دلبران در حدیث دیگران کے طور پر ہے کہ بظاہر خطاب رسول کریمؐ سے ہے مگر دوسروں کی سرزنش مراد ہے۔ (ملاحظہ ہو عیون اخبار الرضا ۱: ۲۰۲) ان منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کو اجازت دینے میں ہی مصلحت تھی کیونکہ وہ اگر جنگ میں شریک ہوتے تو وہ خرابی میں اور اضافہ کرتے اور لشکر اسلام کے درمیان فتنہ کھڑا کرتے:

لَوۡ خَرَجُوۡا فِیۡکُمۡ مَّا زَادُوۡکُمۡ اِلَّا خَبَالًا ۔۔۔۔۔۔۔ (۹ توبۃ: ۴۷)

اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے بھی تو تمہارے لیے صرف خرابی میں اضافہ کرتے۔۔۔۔

اور اجازت نہ دینے کی صورت میں ان کے نفاق پر پردہ پڑا رہتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ لہجہ اختیار فرمایا کہ ان کا ضمیر بھی فاش ہو جائے اور ان کے شر سے اسلام محفوظ بھی رہ جائے نیز اگلی آیت میں فرمایا:

وَّ لٰکِنۡ کَرِہَ اللّٰہُ انۡۢبِعَاثَہُمۡ فَثَبَّطَہُمۡ ۔۔۔ (۹ توبۃ: ۴۶)

لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا ناپسند تھا اس لیے اس نے (ان سے توفیق سلب کر کے) انہیں ہلنے نہ دیا۔

اس مختصر بیان سے ان لوگوں کا یہ نظریہ باطل ثابت ہوتا ہے جو صاحب وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ۔۔۔۔۔ (۵۳ نجم: ۳) کو مجتہد کا درجہ دیتے ہیں اور یہ بھی جائز سمجھتے ہیں کہ رسولؐ سے ما لا نص فیہ میں اجتہادی غلطی سرزد ہو جاتی ہے۔ وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں :

جس اجازت پر عتاب ہو رہا ہے وہ حضورؐ کی طرف سے ایسے موضوع میں اجتہاد تھا جس میں بذریعہ وحی کوئی نص نہ تھی اور یہ بات انبیاء علیہم السلام سے صادر ہو سکتی ہے کیونکہ وہ ایسی باتوں میں معصوم عن الخطاء نہیں ہیں۔ وہ وحی کی تبلیغ و بیان اور اس پر عمل کرنے میں بالاتفاق معصوم ہیں۔ (المنار ۱۰: ۴۶۵)

اس کا مطلب یہ ہوا رسولؐ اولاً حکم خدا کے بغیر فیصلے کرتے ہیں ، جب کہ اللہ کا حکم تو یہ ہے:

وَ اصۡبِرۡ حَتّٰی یَحۡکُمَ اللّٰہُ ۔۔۔۔ (۱۰ یونس: ۱۰۹)

اللہ کا فیصلہ آنے تک صبر کریں۔۔۔۔

ثانیاً ان فیصلوں میں ان سے غلطی سرزد ہو جاتی ہے اور انبیاء (ع) ایسی باتوں میں معصوم نہیں ہیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ انبیاء (ع) بیان احکام میں معصوم نہیں ہیں۔ سبحانک ہذا بہتان عظیم۔


آیت 43