آیت 35
 

یَّوۡمَ یُحۡمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکۡوٰی بِہَا جِبَاہُہُمۡ وَ جُنُوۡبُہُمۡ وَ ظُہُوۡرُہُمۡ ؕ ہٰذَا مَا کَنَزۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ فَذُوۡقُوۡا مَا کُنۡتُمۡ تَکۡنِزُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ جس روز وہ مال آتش جہنم میں تپایا جائے گا اور اسی سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پشتیں داغی جائیں گی (اور ان سے کہا جائے گا) یہ ہے وہ مال جو تم نے اپنے لیے ذخیرہ کر رکھا تھا، لہٰذا اب اسے چکھو جسے تم جمع کیا کرتے تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ یَّوۡمَ یُحۡمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ: اس دن وہ آتش جہنم میں تپایا جائے گا۔ اس مطلب کو بیان کرنے کے لیے فرمایا اس روز آتش کو اس مال پر تپایا جائے گا۔ یوم تحمی(النار) علیھا ۔یہ بتانے کے لیے کہ اس سونے اور چاندی کو اس حد تک گرم کیا جائے گا گویا کہ آتش جہنم کو اس کی حرارت سے تپایا جائے گا۔

۲۔ فَتُکۡوٰی بِہَا: پھر اس سونے چاندی سے پیشانیاں ، پہلو اور پشتیں داغی جائیں گی۔ ان اعضا کا ذکر، ممکن ہے اس لیے ہوا ہو کہ ان اعضاء سے جسم کا احاطہ ہو جاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اشرف الاعضاء ہیں اس لیے ان کا ذکر ہوا۔ بعض کہتے ہیں کہ سائل کے سامنے اس نے منہ موڑا، پشت پھیری ہے۔

۳۔ ہٰذَا مَا کَنَزۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ: یہ ہے وہ مال جو تم نے اپنے لیے ذخیرہ کر رکھا تھا۔ یعنی انسان اپنے فائدے اور ضرورت کے لیے مال ذخیرہ کرتا ہے لیکن یہ مال تم نے اپنے عذاب کے لیے ذخیرہ کیا۔

اس شدید عذاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام مالی حقوق کے لیے کس اہمیت کا قائل ہے کیونکہ

ایک عادل اقتصادی نظام کا قیام مالی حقوق کی پاسداری سے ہی ممکن ہے۔

اہم نکات

۱۔ انسان دنیا میں جو عمل انجام دیتا ہے وہ نابود نہیں ہوتا۔ قیامت میں عیناً وہی چیز پیش کی جاتی ہے: فَذُوۡقُوۡا مَا کُنۡتُمۡ تَکۡنِزُوۡنَ


آیت 35