آیت 129
 

قَالُوۡۤا اُوۡذِیۡنَا مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَاۡتِیَنَا وَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جِئۡتَنَا ؕ قَالَ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّہۡلِکَ عَدُوَّکُمۡ وَ یَسۡتَخۡلِفَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۲۹﴾٪

۱۲۹۔ (قوم موسیٰ نے) کہا: آپ کے آنے سے پہلے بھی ہمیں اذیت دی گئی اور آپ کے آنے کے بعد بھی، موسیٰ نے کہا: تمہارا رب عنقریب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور زمین میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالُوۡۤا اُوۡذِیۡنَا: بنی اسرائیل کا لب و لہجہ مایوس اور تھکے ہوئے لوگوں کالہجہ ہے کہ کہتے ہیں: اے موسیٰ!آپ کے آنے سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہم برابر مصیبتوں کا شکار تھے۔ اب بھی شکار ہو رہے ہیں، جب کہ ہمارے ساتھ وعدہ تھا کہ موسیٰ کے آنے پر ہم کو فرعون کے مظالم سے آزادی ملے گی۔

۲۔ قَالَ عَسٰی رَبُّکُمۡ: حضرت موسیٰ (ع) نے ان کے جواب میں اس وعدے کا اعادہ فرمایا کہ تمہارا دشمن ہلاک ہو گا۔ تم اس کی جگہ فرمانروا ہو گے۔

فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ: پھر تمہارا کردار دیکھا جائے گا۔ ایسا نہیں کہ یہ وعدہ، یہ اقتدار اور یہ نعمتیں تمہارا ذاتی حق ہیں بلکہ تم کو اپنے عمل و کردار سے ان چیزوں کا مستحق بننا ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ حق کا سفر لمبا، صبر آزما اور کٹھن ہوتا ہے: اُوۡذِیۡنَا مِنۡ قَبۡلِ ۔۔۔۔

۲۔ زمین کا وارث بننے کے بعد بدکرداروں کی وجہ سے نعمتیں سلب ہو سکتی ہیں: فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ ۔


آیت 129