آیات 80 - 82
 

وَ حَآجَّہٗ قَوۡمُہٗ ؕ قَالَ اَتُحَآجُّوۡٓنِّیۡ فِی اللّٰہِ وَ قَدۡ ہَدٰىنِ ؕ وَ لَاۤ اَخَافُ مَا تُشۡرِکُوۡنَ بِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ رَبِّیۡ شَیۡئًا ؕ وَسِعَ رَبِّیۡ کُلَّ شَیۡءٍ عِلۡمًا ؕ اَفَلَا تَتَذَکَّرُوۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰ ۔ اور ابراہیم کی قوم نے ان سے بحث کی تو انہوں نے کہا:کیا تم مجھ سے اس اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہو جس نے مجھے سیدھا راستہ دکھایا ہے؟ اور جن چیزوں کو تم اس کا شریک ٹھہراتے ہو ان سے مجھے کوئی خوف نہیں مگر یہ کہ میرا رب کوئی امر چاہے، میرے رب کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے، کیا تم سوچتے نہیں ہو؟

وَ کَیۡفَ اَخَافُ مَاۤ اَشۡرَکۡتُمۡ وَ لَا تَخَافُوۡنَ اَنَّکُمۡ اَشۡرَکۡتُمۡ بِاللّٰہِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِہٖ عَلَیۡکُمۡ سُلۡطٰنًا ؕ فَاَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۘ۸۱﴾

۸۱۔اور میں تمہارے بنائے ہوئے شریکوں سے کیونکر ڈروں جب کہ تم ان چیزوں کو اللہ کا شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کی کوئی دلیل اس نے تم پر نازل نہیں کی؟ اگر تم کچھ علم رکھتے ہو تو بتاؤ کہ کون سا فریق امن و اطمینان کا زیادہ مستحق ہے ۔

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمۡنُ وَ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ﴿٪۸۲﴾

۸۲۔جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے ملوث نہیں کیا یہی لوگ امن میں ہیں اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔

تفسیر آیات

سیاق و سباق آیت سے موضوع بحث کا عندیہ ملتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی قوم ان کو دو باتوں میں قابل گرفت قرار دیتی تھی:

۱۔ ابراہیمؑ نے ہمارے آبا و اجداد کے خداؤں سے انحراف کر کے گمراہی اختیار کی ہے۔ اس کے جواب میں حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے فرمایا: اَتُحَآجُّوۡٓنِّیۡ فِی اللّٰہِ وَ قَدۡ ہَدٰىنِ ۔۔۔۔ کیا تم اللہ کے بارے میں مجھ سے بحث کرتے ہو جس نے مجھے ہدایت سے نوازا ہے۔ یعنی گمراہی میں تم ہو، مجھے تو اپنے اللہ کی طرف سے صحیح راستہ کی ہدایت ملی ہے۔ یہ ایک نہایت فکر انگیز جواب ہے کہ میرا اللہ مجھے ہدایت دیتا ہے۔ میری رہنمائی کرتا ہے۔ جب کہ تم جن چیزوں کو اپنا رب اور خدا بناتے ہو، وہ تو اس قابل ہی نہیں کہ تمہیں ہدایت دے سکیں، لہٰذا گمراہ تم ہو، نہ کہ میں۔

۲۔ ابراہیمؑ نے ان خداؤں کو مسترد کر کے ان کے قہر و غضب کا خطرہ مول لیا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ اس کے جواب میں فرماتے ہیں: وَ لَاۤ اَخَافُ مَا تُشۡرِکُوۡنَ ۔ مجھے ان خود ساختہ خداؤں سے کوئی خطرہ نہیں ہے:

قَالَ ہَلۡ یَسۡمَعُوۡنَکُمۡ اِذۡ تَدۡعُوۡنَ اَوۡ یَنۡفَعُوۡنَکُمۡ اَوۡ یَضُرُّوۡنَ (۲۶ شعراء: ۷۳)

ابراہیم نے کہا: جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری سنتے ہیں؟ یا تمہیں فائدہ یا ضرر دیتے ہیں؟

تمہارے ان بے شعور بتوں سے خوف لاحق ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ رَبِّیۡ خوف کا سوال میرے رب کی نافرمانی سے ہو سکتا ہے، جس کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ وہ میری آواز سنتا ہے، وہ مجھے فائدہ دے سکتا ہے۔ اس کی نافرمانی سے مجھے ضرر پہنچتا ہے۔ اس سے اس کائنات میں کوئی شے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس کی نافرمانی سے خوف کرنا چاہیے: وَسِعَ رَبِّیۡ کُلَّ شَیۡءٍ عِلۡمًا ۔۔۔۔

وَ کَیۡفَ اَخَافُ: میں تمہارے شریکوں سے کیونکر خوف کروں۔ یہ شریک نہ شعور و ادراک رکھتے ہیں، نہ نفع و ضرر میں کوئی دخل رکھتے ہیں۔ خوف تمہیں لاحق ہونا چاہیے تھا کہ تم نے بغیر کسی حجت و دلیل کے چند ایک جامد اور خود ساختہ چیزوں کو اللہ کا شریک بنایا ہے۔

وَ کَیۡفَ اَخَافُ مَاۤ اَشۡرَکۡتُمۡ: توحید پرست اور بت پرستوں میں موازنہ فرمایا کہ ان دونوں میں سے کون امن و سکون کا مستحق ہے۔ توحید پرست اپنے مؤقف پر دلیل و برہان رکھتے ہیں۔ انہیں اپنے مؤقف پر یقین کامل ہے۔ جب کہ بت پرست اپنے مؤقف پر کوئی دلیل و برہان نہیں رکھتے، نہ یقین رکھتے ہیں بلکہ وہ آبا و اجداد کی اندھی تقلید میں یہ دین اپناتے ہیں۔ لہٰذا حضرت ابراہیمؑ نے ان کو یہاں دعوت فکر دی اور فرمایا: فَاَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ ۔۔۔۔ بتاؤ کون سا فریق امن و اطمینان کا مستحق ہے؟

لوگوں کے وجدان اور ضمیر کو جھنجوڑنے اور ضمیر کی عدالت عظمیٰ میں مقدمہ پیش کرنے کے بعد ایک ابدی فیصلہ سنایا گیا۔ وہ ہے:

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمۡنُ وَ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ

جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے ملوث نہیں کیا یہی لوگ امن میں ہیں اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔

وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا: اپنے ایمان کو ایسے ظلم سے ملوث نہ کریں جس سے ایمان غیر مؤثر ہو کر رہ جائے۔ اس میں شرک بھی شامل ہے اور غیر شرک اور ہر وہ گناہ جو اپنے ایمان کے تقاضوں کے منافی ہو۔ جیسے سورہ حجرات، آیت ۲ میں فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ

اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نبی کے ساتھ اونچی آواز میں بات نہ کرو جس طرح تم آپ میں ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو، کہیں تمہارے اعمال حبط ہو جائیں تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

انسان سے ایسا ظلم سرزد ہو سکتا ہے جس سے اس کے سارے اعمال حبط اور ضائع ہو جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ صرف ایمان کا اظہار کافی نہیں ہے، جب تک اس کے آثار کردار پر ظاہر نہ ہوں ۔ یعنی انسان کو وہ ایمان امن دے سکتا ہے، جو اس کے کردار پر مؤثر رہے اور ظلم بہ نفس نہ کرے۔

ایمان والے ہی دنیا و آخرت میں امن و سکون میں ہوتے ہیں۔ دنیا میں بھی وہ لوگ جو ایمان کی دولت سے محروم ہیں، قلبی سکون اور نفسیاتی اطمینان سے محروم ہوتے ہیں:

وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا ۔۔۔۔۔ (۲۰ طٰہٰ: ۱۲۴)

اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی۔۔۔۔

اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ مَقَامٍ اَمِیۡنٍ (۴۴ دخان: ۵۱)

اہل تقویٰ یقینا امن کی جگہ میں ہوں گے۔

البتہ دارین کے اس امن و سکون کے لیے ضروری ہے کہ اس ایمان کو ہر قسم کے ظلم و زیادتی سے پاک رکھا جائے۔ نہ اپنے نفس پر ظلم کریں، نہ دوسروں پر۔ ایسا ظلم جو ایمان کے منافی ہو، ایمان کے آثار کے خلاف ہو۔ مثلاً گناہان کبیرہ کے اس طرح مرتکب ہوں کہ ان گناہوں سے رکنے کے لیے ان کے باطن میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ دوسروں پر اس طرح ظلم کریں کہ ضمیر اور وجدان ان کے آڑے نہ آئے، ایسے حالات میں ان پر یہ فرمان صادق آئے گا:

فَیَوۡمَئِذٍ لَّا یَنۡفَعُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مَعۡذِرَتُہُمۡ وَ لَا ہُمۡ یُسۡتَعۡتَبُوۡنَ (۳۰ روم: ۵۷)

پس اس دن ظالموں کو ان کی معذرت کوئی فائدہ نہ دے گی اور نہ ان سے معافی مانگنے کے لیے کہا جائے گا۔

اہم نکات

۱۔ ہدایت و رہنمائی اس ذات کی طرف سے آ سکتی ہے، جس کا علم ہر چیز پر محیط ہو: وَسِعَ رَبِّیۡ کُلَّ شَیۡءٍ عِلۡمًا ۔۔۔

۲۔ غیر اللہ سے لو لگانے والے دنیا و آخرت دونوں میں خوف و اضطراب سے دو چار ہوں گے۔

۳۔ ایمان کا ہونا اور ظلم کا نہ ہونا، دو ایسے ستون ہیں جن پر امن و سکون قائم ہے: وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ ۔۔۔۔


آیات 80 - 82