آیت 70
 

وَ ذَرِ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا دِیۡنَہُمۡ لَعِبًا وَّ لَہۡوًا وَّ غَرَّتۡہُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا وَ ذَکِّرۡ بِہٖۤ اَنۡ تُبۡسَلَ نَفۡسٌۢ بِمَا کَسَبَتۡ ٭ۖ لَیۡسَ لَہَا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیۡعٌ ۚ وَ اِنۡ تَعۡدِلۡ کُلَّ عَدۡلٍ لَّا یُؤۡخَذۡ مِنۡہَا ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اُبۡسِلُوۡا بِمَا کَسَبُوۡا ۚ لَہُمۡ شَرَابٌ مِّنۡ حَمِیۡمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ﴿٪۷۰﴾

۷۰۔ اور (اے رسول) جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنایا ہوا ہے اور دنیا کی زندگی نے انہیں فریب دے رکھا ہے آپ انہیں چھوڑ دیں البتہ اس (قرآن) کے ذریعے انہیں نصیحت ضرور کریں مبادا کوئی شخص اپنے کیے کے بدلے پھنس جائے کہ اللہ کے سوا اس کا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ ہی شفاعت کنندہ اور اگر وہ ہر ممکن معاوضہ دینا چاہے تب بھی اس سے قبول نہ ہو گا، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی کرتوتوں کی وجہ سے گرفتار بلا ہوئے، ان کے کفر کے عوض ان کے پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہے۔

تشریح کلمات

تُبۡسَلَ:

( ب س ل ) البسل۔ ترشرو ، روکنے، محروم رکھنے اور اردگرد رکھنے کے معنوں میں آتا ہے۔ بہادر کو باسل اس کی ترش روئی کی وجہ سے کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ ذَرِ: چھوڑیے۔ ان کی محافل میں بیٹھنا، ان سے میل جول چھوڑ دیجیے۔ اس چھوڑنے کا مطلب ان سے بالکل لا تعلق ہو کر ان کو ان کے حال پر چھوڑنا نہیں چونکہ اس کے بعد حکم آتا ہے: وَ ذَکِّرۡ بِہٖۤ ، ان کو نصیحت ضرور کریں۔ جیساکہ دوسری جگہ فرمایا: فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ وَ عِظۡہُمۡ ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۶۳) آپ انہیں خاطر میں نہ لائیے اور انہیں نصیحت کیجیے۔ یعنی ان کا تعاقب نہ کرو، صرف نصیحت کرنے پر اکتفا کرو۔

۲۔ دِیۡنَہُمۡ لَعِبًا وَّ لَہۡوًا: جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنایا ہوا ہے۔ ان کا کوئی دین تھا، اس کو لہو و لعب میں بدل دیا یا لہو و لعب کو دین بنایا۔ دونوں صورتوں میں ایسے مراسم و عادات کو دین قرار دیا، جس کا نہ ان کی دنیا کے لیے کوئی فائدہ، نہ آخرت کے لیے۔

۳۔ وَّ غَرَّتۡہُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا: اس قسم کی بیہودگیوں کو دین بنانے یا دین کو بیہودگیوں میں بدلنے کا اصل محرک خواہشات پرستی ہے۔ جس طرح کسی کھلونے سے کھیلنے والا، کھلونے کو اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق الٹ پلٹ کرتا ہے، خواہش پرست، دین کو بھی اپنے دنیاوی مفادات کے مطابق الٹ پھیر کرتا ہے۔

۴۔ وَ ذَکِّرۡ بِہٖۤ: ان کو قرآن کے ذریعے نصیحت کریں۔ یہ نصیحت رحمت علی الخلق کی بنیاد ہے۔

کہ اَنۡ تُبۡسَلَ یہ خواہش پرست لوگ اپنی بدکرداری کے گرداب میں پھنس کر نہ رہ جائیں۔ اس صورت میں واحد ذریعۂ نجات، نصیحت قرآنی پر عمل کرنا ہے۔ دوسرے تمام ذرائع سے اس کو فائدہ نہیں ملے گا۔ نہ کوئی کارساز نہ، شفاعت کنندہ، نہ کوئی معاوضہ۔

۵۔ لَیۡسَ لَہَا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ: دین کو لہو لعب بنانے والے اس لیے گرداب میں پھنس جائیں گے کہ ان کی فریاد کو پہنچنے والا کوئی نہ ہو گا۔ ان کے لیے نجات کا راستہ اللہ کی ولایت اور شفاعت میں تھا۔ سو اس کو ان لوگوں نے مسترد کر دیا تھا۔

۶۔ وَ اِنۡ تَعۡدِلۡ کُلَّ عَدۡلٍ لَّا یُؤۡخَذۡ مِنۡہَا: نجات کے لیے ایک راستہ تصور ہو سکتا ہے کہ فدیہ اور معاوضہ دے کر جان چھڑائی جائے۔ وہ ہر ممکن معاوضہ دے، پھر بھی یہ نجات کا راستہ نہ ہو گا۔

۷۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اُبۡسِلُوۡا بِمَا کَسَبُوۡا: جو لوگ اپنی ہی کرتوتوں کی وجہ سے گرفتار بلا ہوتے ہیں، ان کے لیے نجات کا کوئی راستہ نہیں۔

اہم نکات

۱۔ اللہ اور رسولؐ لوگوں کی ہدایت کے خواہاں خود مخلوق پر رحمت و شفقت کی وجہ سے ہیں، نہ کہ احتیاج اور ضرورت کی وجہ سے۔

۲۔ خواہش پرست دین کو اپنی خواہشات کے تابع بناتا ہے، جب کہ توحید پرست اپنے آپ کو دین کے تابع بناتا ہے۔


آیت 70