آیات 68 - 69
 

وَ اِذَا رَاَیۡتَ الَّذِیۡنَ یَخُوۡضُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖ ؕ وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّکۡرٰی مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ اور جب آپ دیکھیں کہ لوگ ہماری آیات کے بارے میں چہ میگوئیاں کر رہے ہیں تو آپ وہاں سے ہٹ جائیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسری گفتگو میں لگ جائیں اور اگر کبھی شیطان آپ کو بھلا دے تو یاد آنے پر آپ ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھیں

وَ مَا عَلَی الَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ مِنۡ حِسَابِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ وَّ لٰکِنۡ ذِکۡرٰی لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔اور اہل تقویٰ پر ان (ظالموں) کا کچھ بار حساب نہیں تاہم نصیحت کرنا چاہیے شاید وہ اپنے آپ کو بچا لیں۔

تشریح کلمات

یَخُوۡضُوۡنَ:

الخوض کے معنی پانی میں اترنے اور اس کے اندر چلے جانے کے ہیں۔ بطور استعارہ کسی کام میں مشغول رہنے پر بولا جاتا ہے۔ قرآن میں اس کا زیادہ تر استعمال فضول کاموں میں لگے رہنے پر ہوا ہے۔ (راغب)

تفسیر آیات

اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ جو لوگ ہماری آیات میں چہ میگوئیاں کرتے ہیں، ان کے ساتھ نہ بیٹھو بلکہ یہ فرمایا: جب چہ میگوئیاں ہو رہی ہوں، اس وقت ان کی محفلوں میں نہ بیٹھو۔ یہ حکم مکہ کے زمانے کا ہے، جہاں رسول اللہؐ کی ذمہ داری صرف دعوت تک محدود تھی، جنگ و قتال کی ابھی نوبت نہیں آئی تھی۔

واضح رہے یہاں خطاب اگرچہ رسول اللہؐ کے لیے ہے، مگر سمجھانا مسلمانوں کو مقصود ہوتا ہے۔ جیساکہ حدیث میں بھی آیا ہے کہ قرآن کا اسلوب سخن یہ ہے:

اِیَّاکِ أَعْنِي وَ اسْمَعِي یَا جَارَۃُ ۔ (الکافی۲: ۶۳۰ باب النوادر۔ عیون أخبار الرضا ۱: ۲ باب ۱۵۔ بحار الانوار ۱۷: ۷۱ باب ۱۵۔ عصمتہ و تاویل بعض ما یوھم خلاف ذلک )

روئے سخن خواہ کسی کی طرف ہے لیکن سمجھانا کسی اور کو مقصود ہوتا ہے۔

مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نساء آیت ۱۴۰۔

وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نسیان لاحق ہوتا تھا، خصوصاً احکام شرعی میں؟ امامیہ کا اجماعاً مؤقف یہ ہے کہ نسیان لاحق نہیں ہوتا تھا۔ عقلاً ایسا ممکن نہیں ہے کہ اللہ اپنی رسالت کو ایسی جگہ رکھے جو نسیان کے ذریعے ضیاع کے خطرے سے خالی نہ ہو نیز قرآن کی متعدد آیات سے بھی ثابت ہے کہ آپؐ کو تبلیغ احکام میں نسیان لاحق نہیں ہوتا تھا:

پہلی آیت: سَنُقۡرِئُکَ فَلَا تَنۡسٰۤی ۔ (۸۷ اعلی : ۶) اللہ کی طرف سے اقراء کا مطلب وحی ہے اور وحی قلب رسولؐ پر نقش ہونے سے عبارت ہے۔ یہاں فراموشی ممکن نہیں ہے، تاہم خود اللہ نے اس اقراء کا نتیجہ بیان فرمایا: فَلَا تَنۡسٰۤی ، ہمارے اقراء کے بعد آپ نہیں بھولیں گے۔

دوسری آیت: وَ لَئِنۡ شِئۡنَا لَنَذۡہَبَنَّ بِالَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ۔۔۔۔ (۱۷ بنی اسرائیل:۸۶) اور اگر ہم چاہیں تو ہم نے جو کچھ آپ کی طرف وحی کی ہے وہ سلب کر لیں۔ اگلی آیت کے آخر میں فرمایا: اِنَّ فَضۡلَہٗ کَانَ عَلَیۡکَ کَبِیۡرًا ۔ ( ۱۷ بنی اسرائیل:۸۷) آپؐ پر یقینا اس کا بڑا فضل ہے۔ اس کا لازمی تقاضا یہ ہوا کہ وحی کا کوئی حصہ سلب نہیں ہوا۔ بِالَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ میں تمام وحی شامل ہیں، خواہ قرآن ہو یا غیر قرآن۔ نسیان ایک قسم کا سلب ہے، خواہ وقتی کیوں نہ ہو۔ آیت کے اطلاق میں ہر قسم کے سلب کی نفی ہے۔

تیسری آیت: اللہ تعالیٰ کا ابلیس سے یہ ارشاد: اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ ۔۔۔۔ (۱۷ بنی اسرائیل: ۶۵) میرے بندوں پر تیری کوئی بالا دستی نہیں ہے۔ رسول اللہؐ کو بیان احکام سے از راہ فراموشی باز رکھنا، شیطان کی بالادستی ہے، جس سے انبیاء (ع) بری ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ بعض لوگوں نے اس آیت اور دوسری آیات سے یہ ثابت کرنے کی سعی کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھول اور نسیان لاحق ہوتا تھا۔ حد یہ کہ صحیح مسلم کتاب المساجد، باب ۲۰، السہو فی الصلاۃ والسجود لہ کی حدیث:

وَلَکِنْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَی کَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِیْتُ فَذَکِّرُونِِِي ۔

لیکن میں بھی ایک بشر ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہے، چنانچہ اگر میں بھولو تو تم لوگ مجھے یاد دلاؤ۔

کے ذیل میں شارح صحیح مسلم امام نووی جمہور اہل سنت کے مذہب کی ترجمانی ان الفاظ میں کرتے ہیں :

فِیْہِ: دَلِیْلٌ عَلَی جَوَازِ النِّسْیَانِ عَلَیْہِ- صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - فِی أَحْکَامِ الشَّرْعِ وَہُوَ مَذْہَبُ جَمْہُورِ الْعُلَمَائِ ۔۔۔ ( شرح النووي علی مسلم، ۲: ۳۴۲، باب السہو فی الصلاۃ )

اس روایت میں اس بات پر دلیل موجود ہے کہ رسول خداؐ پر شریعت کے احکام بیان کرنے میں بھی نسیان لاحق ہوسکتا ہے اور یہی جمہور علماء کا موقف ہے۔۔۔۔

وَ مَا عَلَی الَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ: اگر کوئی مؤمن دین کا مذاق اڑانے والوں کے اس عمل زشت پر راضی نہیں ہے اور بوجہ فراموشی اور عدم توجہ ان کے درمیان بیٹھا رہتا ہے تو ان مذاق اڑانے والوں کا بار گناہ اس پر نہیں آئے گا تاہم اس مؤمن کو چاہیے کہ وہ مذاق اڑانے والوں کو نصیحت کرے۔ وَّ لٰکِنۡ ذِکۡرٰی میں ذِکۡرٰی مفعول مطلق ہے۔ اصل کلام ہے: و لکن ذکروھم ذکری ۔ (مجمع البیان)

اہم نکات

۱۔ اسلام کا مذاق اڑانے والی محفلوں میں بیٹھنا دینی حمیت و غیرت کے فقدان کی علامت ہے۔

۲۔ اپنے نظریے کا دفاع ممکن یا مؤثر نہ ہونے کی صورت میں بائیکاٹ ہی ایمان کا تقاضا ہے۔

۳۔ نصیحت یا دفاع کی غرض سے ایسی محفلوں میں بیٹھنے میں حرج نہیں: وَّ لٰکِنۡ ذِکۡرٰی ۔۔۔۔


آیات 68 - 69