آیت 65
 

قُلۡ ہُوَ الۡقَادِرُ عَلٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَ عَلَیۡکُمۡ عَذَابًا مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ اَوۡ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِکُمۡ اَوۡ یَلۡبِسَکُمۡ شِیَعًا وَّ یُذِیۡقَ بَعۡضَکُمۡ بَاۡسَ بَعۡضٍ ؕ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَفۡقَہُوۡنَ﴿۶۵﴾

۶۵۔ کہدیجئے:اللہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ تمہارے اوپر سے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے تم پر کوئی عذاب بھیج دے یا تمہیں فرقوں میں الجھا کر ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم اپنی آیات کو کس طرح مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔

تشریح کلمات

شِیَعًا:

( ش ی ع ) جوہری صحاح میں لکھتے ہیں: شیعۃ الرجل اتباعہ ۔ کسی کا شیعہ ہونے کا مطلب ہے اس کے پیروکاروں میں سے ہونا۔ چنانچہ شایعہ کہتے ہیں، جیسا کہ والاہ کہتے ہیں، جس کے معنی اتباع و موالات کے ہیں۔

تفسیر آیات

امت اسلامیہ کو مستقبل میں پیش آنے والے داخلی انتشار و افتراق کی طرف اشارہ ہے۔

۱۔ عَذَابًا مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ: اوپر سے آنے والے اور قدموں کے نیچے سے آنے والے عذاب کے بارے میں مختلف تاویلات ہیں کہ اوپر سے آنے والا عذاب طوفان و سنگ باری ہے اور نیچے سے پھوٹنے والا عذاب زمین میں دھنس جانا ہے، جیسے قارون کے لیے ہوا۔ بعض فرماتے ہیں، اوپر سے آنے والا عذاب، حکمرانوں کی طرف سے آنے والا عذاب ہے اور نوکروں کی طرف سے آنے والا عذاب قدموں کے نیچے والا ہے۔ ہمارے بعض معاصر تو جنگوں میں اوپر سے ہونے والی بمباری اور نیچے سے پھٹنے والی مائینز (mines) بھی مراد لیتے ہیں لیکن ان مجموع اقوال سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اوپر نیچے ایک تعبیر ہے۔ اصل مراد یہ ہے کہ اللہ تم کو ہر طرف سے آنے والے عذاب سے گھیر سکتا ہے۔ ساتھ اس میں اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ ایسے عذاب کے تم مستحق بھی ہو۔

۲۔ اَوۡ یَلۡبِسَکُمۡ شِیَعًا: عذاب کی دوسری صورت یہ بتائی کہ داخلی طور پر بدامنی کا شکار کر کے ایک گروہ کو دوسرے پر مسلط کیا جائے۔ چنانچہ یہ امت ہمیشہ داخلی بدامنی کا شکار رہی ہے۔ یَلۡبِسَکُمۡ میں لَبْس کے معنی ہیں الجھانا۔

۳۔ لَعَلَّہُمۡ یَفۡقَہُوۡنَ: آخر میں فرمایا: ’’شاید کہ وہ سمجھ جائیں۔‘‘ اس قسم کی داخلی بدامنی اور عدم تحفظ سے یہ شعور آ جائے کہ اللہ کی نافرمانی اور اسلامی تعلیمات سے دوری سے باز آ جائیں۔

اَوۡ یَلۡبِسَکُمۡ شِیَعًا کے ذیل میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

ہُوَ اخْتِلَافٌ فِی الدِّیْنِ وَطَعْنِ بَعْضِکُمْ عَلَی بَعْضٍ، وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ وَہُوَ أَنْ یَقْتُلَ بَعْضُکُمْ بَعْضاً ۔ (تفسیر القمی ۱: ۲۰۴، سورۃ الانعام۔ المیزان ۷:۱۴۹)

لوگوں کا دین میں اختلاف اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنا اور وَّ یُذِیۡقَ بَعۡضَکُمۡ بَاۡسَ بَعۡضٍ سے ایک دوسرے کو قتل کرنا مراد ہے۔

اہم نکات

۱۔ اس امت کا داخلی بد امنی کا شکار ہونا ہے: یَلۡبِسَکُمۡ شِیَعًا ۔۔۔۔

۲۔ ہر طرف سے گھیرنے والے عذاب سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔

۳۔ داخلی بدامنی کو عذاب الٰہی تصور کرلیں تو ہمزیستی کا شعور بیدار ہوسکتا ہے: لَعَلَّہُمۡ یَفۡقَہُوۡنَ ۔


آیت 65