آیات 42 - 43
 

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰۤی اُمَمٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَاَخَذۡنٰہُمۡ بِالۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمۡ یَتَضَرَّعُوۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔اور بے شک آپ سے پہلے (بھی) بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے پھر ہم نے انہیں سختیوں اور تکالیف میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کا اظہار کریں۔

فَلَوۡلَاۤ اِذۡ جَآءَہُمۡ بَاۡسُنَا تَضَرَّعُوۡا وَ لٰکِنۡ قَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ پھر جب ہماری طرف سے سختیاں آئیں تو انہوں نے عاجزی کا اظہار کیوں نہ کیا؟ بلکہ ان کے دل اور سخت ہو گئے اور شیطان نے ان کے اعمال انہیں آراستہ کر کے دکھائے۔

تشریح کلمات

بِالۡبَاۡسَآءِ:

( ب ء س ) البؤس، البأس، البأساء، تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں۔ مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقر و فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولا جاتا ہے اور البأس و البأساء جسمانی زخم اور نقصان کے لیے آتا ہے (الراغب)

الضَّرَّآءِ:

( ض ر ر ) کے معنی بدحالی کے ہیں۔ خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو، جیسے علم و فضل اور عفت میں کمی اور خواہ بدن سے ہو، جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال و جاہ کے سبب۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اللہ تعالیٰ اس آیت میں کائنا ت کے قانون کی دفعات بیان فرمارہا ہے، جو اس سے پہلے کی تمام قوموں پر حاکم رہی ہیں کہ اللہ نے مختلف قوموں کی طرف رسول بھیجے اور ان کو توحید کی طرف دعوت دی اور اللہ کی نشانیاں بھی دکھائیں۔

۲۔ فَاَخَذۡنٰہُمۡ ان قوموں کو اللہ کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ان پر کچھ سختیاں بھی نازل فرمائیں، ایسی سختیاں جو انسان ساز ہوتی ہیں لیکن ان میں نرمی آنے کی بجائے یہ لوگ اور سخت ہوگئے اور ان کے خرافاتی مراسم اور اعمال بد کو شیطان نے مزید زیبائش دی۔ (اس کی مثال ہماری معاصر دنیا میں، یورپ میں ایڈز کی بیماری ہے۔ شیطان اس بیماری کے محرک اور عمل بد کو آراستہ کر کے دکھاتا ہے۔) جیسا کہ قوم موسیٰ (ع) کے فرعونیوں کو مختلف آفتوں میں مبتلا کیا:

وَ لَقَدۡ اَخَذۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ بِالسِّنِیۡنَ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ ۔ (۷ اعراف: ۱۳۰)

اور بتحقیق ہم نے آل فرعون کو قحط سالی اور پیداوار کی قلت میں مبتلا کیا، شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔

۳۔ لَعَلَّہُمۡ یَتَضَرَّعُوۡنَ ان کو مشکلات میں ڈالنے کا مقصد یہ تھا کہ ان کے دل ٹوٹ جائیں، اللہ کی طرف رجوع کریں، چونکہ مصیبتوں سے انسان کا غرور ٹوٹ جاتا ہے اور اپنی فطرت کی طرف رجوع کرتا ہے، جہاں اسے اللہ مل جاتا ہے، جس میں اس کی کامیابی ہے۔

۴۔ فَلَوۡلَاۤ اِذۡ جَآءَہُمۡ بَاۡسُنَا تَضَرَّعُوۡا ان سختیوں پر بھی عاجزی کا اظہار نہیں کیا۔

۵۔ لٰکِنۡ قَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے دل جرائم میں گھرے ہوئے ہونے کی وجہ سے سخت ہو گئے تھے۔

۶۔ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ شیطان پہلے مرحلہ میں انسان سے گناہ کا شعور چھین لیتا ہے۔ بعد میں گناہ کو زیبا بناتا ہے۔ اب وہ اس گناہ کے ارتکاب پر فخر کرنے لگتا ہے۔

اہم نکات

۱۔مصائب اور سختیاں انسان ساز ہوتی ہیں، جب کہ عیش و عشرت سے انسانی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔

۲۔اعمال بد کا مرتکب ایک توجیہ ضرور پیش کرتا ہے۔ مثلاً تارک الصلوۃ کہتا ہے: دل صاف ہونا چاہیے۔ یہ توجیہ شیطان کی طرف سے اس عمل بد کی آرائش ہے۔


آیات 42 - 43