آیت 81
 

وَ یَقُوۡلُوۡنَ طَاعَۃٌ ۫ فَاِذَا بَرَزُوۡا مِنۡ عِنۡدِکَ بَیَّتَ طَآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ غَیۡرَ الَّذِیۡ تَقُوۡلُ ؕ وَ اللّٰہُ یَکۡتُبُ مَا یُبَیِّتُوۡنَ ۚ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ وَ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا﴿۸۱﴾

۸۱۔ اور یہ لوگ (منہ پر تو) کہتے ہیں: اطاعت کے لیے حاضر (ہیں) لیکن جب آپ کے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ آپ کی باتوں کے خلاف رات کو مشورہ کرتا ہے، یہ لوگ راتوں کو جو مشورہ کرتے ہیں اللہ اسے لکھ رہا ہے۔ پس (اے رسول) آپ ان کی پرواہ نہ کریں اور اللہ پر بھروسا کریں اور کارسازی کے لیے اللہ کافی ہے۔

تشریح کلمات

بَیَّتَ:

رات کے وقت کسی کام کی تدبیر سوچنا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ یَقُوۡلُوۡنَ طَاعَۃٌ: سلسلۂ کلام ضعیف الایمان افراد کے بارے میں جاری ہے کہ ان میں سے ایک گروہ دو رخی سے کام لیتے ہوئے حضور (ص) کے سامنے ان کے ہر امرپر لبیک کہتا ہے، لیکن وہ راتوں کو اپنی خصوصی محافل میں حکمِ رسول (ص) کے خلاف سرگوشیاں کرتے ہیں۔

۲۔ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ: رسول (ص) کے لیے حکم ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کو عیاں نہ کریں بلکہ انہیں نظر انداز کریں۔ یعنی ان کے اس عمل کو خاطر میں نہ لائیں، ان کی ان خفیہ سازشوں اور سرگوشیوں پر اثر مرتب کر کے انہیں اپنی صفوں سے دور نہ کیا جائے یا ان کے اس اندرونی راز کو فاش کر کے معاشرے میں رسوا نہ کیا جائے، بلکہ ان سے تغافل برتیں اور ان کو مسلمانوں کی صفوں میں محفوظ رکھیں۔

یہ آیت ضعیف الایمان مسلمانوں کے بارے میں ہے۔ جیسا کہ صاحب تفسیر المنار نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا ہے۔ لہٰذا فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ سے مراد منافقین نہیں ہیں کہ جَاہِدِ الۡکُفَّارَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ (۶۶ تحریم: ۹۔ کفار اور منافقین سے لڑو) کے ذریعے اس آیت کو منسوخ سمجھاجائے۔

اہم نکات

ا۔عصر رسالت (ص) کے مسلمانوں کے حالات اور ان کے درجات ایمان بیان کرنے میں آنے والی نسلوں کے لیے درسہائے عبرت ہے۔

۲۔ رسول اسلام منافقوں کو بھی اپنی صفوں سے نہیں نکالتے تھے۔ ضعیف الایمان کو تو ہر صورت میں ساتھ رکھتے تھے: فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ ۔۔۔۔


آیت 81