آیت 56
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِنَا سَوۡفَ نُصۡلِیۡہِمۡ نَارًا ؕ کُلَّمَا نَضِجَتۡ جُلُوۡدُہُمۡ بَدَّلۡنٰہُمۡ جُلُوۡدًا غَیۡرَہَا لِیَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا﴿۵۶﴾

۵۶۔جنہوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا ہے یقینا انہیں ہم عنقریب آگ میں جھلسا دیں گے، جب بھی ان کی کھالیں گل جائیں گی (ان کی جگہ) ہم دوسری کھالیں پیدا کریں گے تاکہ یہ لوگ عذاب چکھتے رہیں، بے شک اللہ غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر آیات

کھال گل جانے کی صورت میں دوبارہ تجدید کرنا عذاب کے دائمی ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ دنیاوی قانون طبیعیت کے مطابق پیدا ہونے والے ایک واہمے کا ازالہ ہے کہ جہنم میں جل کر راکھ ہونے کے بعد عذاب کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا۔

واضح رہے کہ درحقیقت انسان کی روح عذاب کا ادراک کرتی ہے۔ جسم اور کھال تو عذاب کو روح کی طرف منتقل کرنے کا صرف ذریعہ ہیں۔

یہ حقیقت بھی اب واضح ہو چکی ہے کہ جلد ہی احساسات کو منتقل کرنے کا ذریعہ ہے۔

احادیث

مادہ پرست ابن ابی العوجاء نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ نئی کھال کا کیا گناہ ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا:

ھی ھی و ھی غیرھا ۔ یہ وہی پرانی کھال ہے اور دوسری بھی۔ ابن ابی العوجاء نے کہا : کوئی مثال دیجیے۔ فرمایا:

أ رأیت لو ان رجلا اخذ لبنۃ فکسرھا ثم ردھا فی ملبنھا، فھی ھی و ھی غیرھا ۔ (الاحتجاج ۲ : ۳۵۴)

کیا تو نے دیکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اینٹ کو توڑ دیتا ہے اور دوبارہ سانچے میں ڈال دیتا ہے تو یہ نئی اینٹ، وہی پہلی اینٹ ہے اور ساتھ دوسری اینٹ بھی۔

اہم نکات

۱۔ جہنم کا عذاب کافروں کے لیے دائمی ہے۔

۲۔ عذاب کا حس جسم کی جلد کی ذریعہ ہوتا ہے۔


آیت 56