آیت 274
 

اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ بِالَّیۡلِ وَ النَّہَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۲۷۴﴾ؔ

۲۷۴۔جو لوگ اپنا مال شب و روز پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کوئی خوف لاحق ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔

تفسیر آیات

انسان اسلامی تربیت کے باعث جب اعلیٰ و ارفع اخلاق کا مالک بن جاتا ہے اور انسانی اقدار کو درک کر لیتا ہے تو انسان دوستی کے اس مقام پر فائز ہو جاتا ہے کہ وہ دن رات اللہ کے بندوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہمیشہ مصروف عمل رہتا ہے۔ وہ حاجت مندوں کی ضروریات پوری کر کے کیف و سرور محسوس کرتا ہے۔ اس کے لیے کھلے بندوں انفاق کرنا یا چھپا کر خیرات کرنا مساوی ہے۔ دونوں صورتوں میں وہ کیف و سرور کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس کا ضمیر سکون اور اس کا وجدان وجد کی حلاوت سے لطف اندوز ہوتا ہے۔

انسانیت کا دکھ بانٹنے والے ایسے لوگوں کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے۔ انہیں دنیا و آخرت دونوں میں نہ کوئی خوف ہو گا نہ کوئی غم۔

احادیث انفاق

جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے:

مَنْ اَسْدَی اِلٰی مُؤْمِنٍ مَعْرُوْفاً ثُمَّ آذَاہُ بِالْکَلاَمِ اَوْ مَنَّ عَلَیْہِ فَقَدْ اَبْطَلَ اللّٰہُ صَدَقَتَہُ ۔ {وسائل الشیعۃ ۹: ۴۵۴}

جو شخص کسی مومن پر احسان کرے، پھر طعنوں کے ذریعے اس کو ایذا دے یا اس پر احسان جتائے تو اللہ اس کا عمل برباد کر دے گا۔

فقہ الرضا علیہ السلام میں آیا ہے:

وَ اعْلَمْ اَنَّ نَفَقَتَکَ عَلَی نَفْسِکَ وَ عِیَالِکَ صَدَقَۃٌ وَ الْکَادَّ عَلَی عِیَالِہِ مِنْ حِلٍّ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ۔ {مستدرک الوسائل ۱۳: ۵۴}

جو تو اپنے اور اپنے عیال پر خرچ کرتا ہے وہ صدقہ ہے۔ جو اپنے عیال کے لیے حلال کمائی کی خاطر مشقت اٹھاتا ہے وہ راہ خدا کے مجاہد کی مانند ہے۔

کافی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

کُلُّ مَا فَرَضَ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَیْکَ فَاِعْلَانُہٗ اَفْضَلُ مِنْ اِسْرَارِہٖ وَ کُلُّ مَا کَانَ تَطَوُّعاً فَاِسْرَارُہٗ اَفْضَلُ مِنْ اِعْلَانِہٖ وَ لَوْ اَنَّ رَجُلاً یَحْمِلُ زَکَاۃَ مَالِہٖ عَلٰی عَاتِقِہٖ فَقَسَّمَھَا عَلاَنِیَۃً کَانَ ذٰلِکَ حَسَنًا جَمِیْلاً ۔ {التہذیب ۴: ۱۰۴}

جو زکوٰۃ اللہ کی طرف سے فرض ہے اسے کھلے عام دینا، چھپا کر دینے سے افضل ہے اور جو زکوٰۃ مستحب ہے اسے چھپا کر دینا کھلے عام دینے سے افضل ہے۔ اگر انسان اپنے مال کی زکوٰۃ اپنے کاندھوں پر علانیہ طور پر تقسیم کرے تو اس میں بہتری اور خوبی ہے۔

آیت کا نزول شانِ علی علیہ السلام میں: یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں اس وقت نازل ہوئی جب آپ (ع) کے پاس صرف چار درھم تھے۔ آپ (ع) نے ان میں سے ایک درھم رات کو، ایک دن کو، ایک علانیہ اور ایک چھپا کر صدقہ دیا۔

اس روایت کے راوی ابن عباس ہیں اور ابن عباس سے درج ذیل راویوں نے روایت کی ہے:

۱۔ ضحاک ۲۔ مجاہد ۳۔ ابو صالح

ملاحظہ فرمائیں: شواہد التنزیل ۱: ۱۴۰ تا ۱۴۹۔ الکشاف۔ اسباب النزول۔ تفسیر کبیر رازی ۷: ۸۹۔ الدر المنثور ۱: ۶۴۲

انفاق کا نفسیاتی رد عمل: بعض مفسرین کے مطابق کچھ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ کسی پر احسان کا نفسیاتی ردعمل دشمنی اور عداوت ہوتا ہے۔ وجہ یہ بتاتے ہیں کہ احسان مند اپنے محسن کے سامنے احساس کمتری کا شکار رہتا ہے۔ یہ احساس کمتری اس کو اکساتا رہتا ہے اور وہ احسان کرنے والے پر فوقیت حاصل کرنے کی کوشش میں رہتا ہے اور یہ کوشش اس کے ساتھ عداوت پر منتج ہوتی ہے۔

یہ تجزیہ غیر اسلامی مالیاتی تصور کے مطابق یا مال و دولت کے بارے میں اسلامی تربیت سے عاری افراد کے بارے میں شاید درست ثابت ہو اور شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

اِتَّقِ شَرَّ مَنْ اَحْسَنْتَ اِلَیْہِ ۔ اس شخص کے شر سے بچو جس پر تم نے احسان کیا ہے۔

لیکن گزشتہ آیات و احادیث کی روشنی میں احسان مند اگر اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت یافتہ شخص ہو تو وہ احسان فراموش اور نمک حرام نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر وہ دینے والا (محسن) ہے تو وہ انفاق کر کے احسان مند سے زیادہ فائدہ اٹھا رہا ہے۔ لینے والا صرف مادی فائدہ اٹھاتا ہے، جب کہ دینے والا مادی بھی، معنوی بھی نیز دنیاوی بھی اور اخروی بھی تمام جہات سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ لہٰذا وہ نہ احسان جتاتا ہے اور نہ ہی ایذا پہنچاتا ہے۔ اس طرح منفی اثر پڑنے کے اسباب کا خاتمہ ہونے کی وجہ سے دشمنی اور عداوت پیدا نہیں ہو گی۔

اہم نکات

۱۔ انفاق کسی خاص وقت یا حالت سے مختص نہیں: بِالَّیۡلِ وَ النَّہَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً ۔۔۔۔

۲۔ انفاق طبقاتی نظام اور ارتکاز دولت کا عملی سدباب ہے۔

تحقیق مزید:

الوسائل ۹: ۴۷ باب الحقوق۔ ۳۴۹ باب استحباب افتتاح النہار بالصدقۃ ۴۰۳ باب استحباب الصدقۃ باللیل۔ بحار الانوار ۴۰: ۲۵ باب سخائہ علیہ السلام۔ شواہد التنزیل ۱: ۱۴۰۔ ۱۴۹


آیت 274