آیات 90 - 91
 

بِئۡسَمَا اشۡتَرَوۡا بِہٖۤ اَنۡفُسَہُمۡ اَنۡ یَّکۡفُرُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ بَغۡیًا اَنۡ یُّنَزِّلَ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ۚ فَبَآءُوۡ بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ﴿۹۰﴾

۹۰۔کتنی بری ہے وہ چیز جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کا سودا کیا کہ صرف اس بات کی ضد میں خدا کے نازل کیے کا انکار کرتے ہیں کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل نازل کرتا ہے، پس وہ اللہ کے غضب بالائے غضب میں گرفتار ہوئے اور کافروں کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔

تشریح کلمات

بَآءُوۡ:

فعل ماضی باء۔ یبوء ۔ مکان، بواء ، ہموار جگہ۔ اللہ کے غضب کے لیے انہوں نے راہ ہموار کی یعنی اس کے سزاوار ٹھہرے۔

مُّہِیۡنٌ:

( ھ و ن ) اھانۃ سے اسم فاعل ہے۔ یعنی ذلیل و رسوا کرنے والا۔

تفسیر آیات

یہودی اس انتظار میں تھے کہ آنے والے رسول(ص) یہودی قبائل میں سے ہوں گے۔ مگر جب انہوں نے دیکھا کہ یہ رسول (ص) قریش سے مبعوث ہوئے ہیں تو صرف حسد کی بنیاد پر کفر اختیار کیا۔ بدترین کفر وہ ہے جو حق واضح ہو جانے کے بعد دوسرے عوامل کی وجہ سے اختیار کیا جاتا ہے۔ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقانیت واضح ہو جانے کے باجود یہودی اس بنیاد پر کفر اختیار کر رہے ہیں کہ اس رسول (ص) کی تعلیمات میں یہودیوں کو دوسروں سے ممتاز مقام دینے کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ حسد انسان کو کفر کی سرحد تک لے جاتا ہے

۲۔ حق کے واضح ہونے پر بھی کفر اختیار کرنے والوں پر اللہ کا غضب بالائے غضب ہو تا ہے


آیات 90 - 91