آیات 88 - 89
 

وَ قَالُوۡا قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ ؕ بَلۡ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفۡرِہِمۡ فَقَلِیۡلًا مَّا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۸۸﴾

۸۸۔ اور وہ کہتے ہیں : ہمارے دل غلاف میں بند ہیں، (نہیں) بلکہ ان کے کفر کے باعث اللہ نے ان پر لعنت کر رکھی ہے، پس اب وہ کم ہی ایمان لائیں گے۔

وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ کِتٰبٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمۡ ۙ وَ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ یَسۡتَفۡتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚۖ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ فَلَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۸۹﴾

۸۹۔ اور جب اللہ کی جانب سے وہ کتاب آئی جو ان کے پاس موجود باتوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور وہ پہلے کافروں پر فتح کی امید رکھتے تھے، پھر جب ان کے پاس وہ آگیا جسے وہ خوب پہچانتے تھے تو وہ اس کے منکر ہو گئے، پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو۔

تشریح کلمات

غُلۡفٌ:

( غ ل ف ) غلاف یا جلد میں بند۔ غُلۡفٌ غلاف کی جمع ہے۔

لَعۡنَ:

( ل ع ن ) لعنت۔ غیض و غضب کی وجہ سے راندۂ درگاہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت کا مطلب یہ ہے کہ ملعون دنیا میں اس کی رحمت و ہدایت سے دور اور آخرت میں اس کی نعمت سے دور ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

یہودی کہتے تھے : ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں۔ ان پراسلام کی تبلیغ کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور ہم اپنے آبائی دین کو نہیں چھوڑ سکتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ان کے دل غلاف میں محفوظ نہیں،بلکہ کفر و نافرمانی کی وجہ سے یہ لوگ لعنتی اور ناقابل ہدایت ہو چکے ہیں۔

حضرت ختمی مرتبت(ص) کے مبعوث برسالت ہونے سے پہلے یہودی اہل کتاب اور مومن سمجھے جاتے تھے اور مشرکین کافر۔ لیکن رسالتمآب کی بعثت کے بعد یہودیوں پر بھی کفر کا اطلاق ہو گیا۔

شان نزول

تفسیر عیاشی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیۂ مبارکہ: وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ کِتٰبٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ ۔۔۔ کے بارے میں مروی ہے کہ فرمایا:

یہودیوں نے اپنی کتب میں پڑھا تھا کہ رسول اکرم(ص) کا مقام ہجرت عیر اور احد کے درمیان ہو گا۔ وہ اس جگہ کی تلاش میں نکل پڑے۔ جب وہ حداد نامی پہاڑ تک پہنچے تو کہنے لگے کہ حداد اور احد ایک ہی چیز ہے۔ چنانچہ وہ یہیں پر منتشر ہو گئے۔ کچھ تیما میں مقیم ہو گئے، بعض فدک میں بس گئے اور کچھ لوگ خیبر میں رہنے لگے۔ بعد میں تیما میں رہنے والوں نے اپنے دوسرے بھائیوں سے ملنے کا ارادہ کیا۔ اسی دوران بنی قیس کا ایک عرب وہاں سے گزرا۔ انہوں نے اس سے سواریاں کرائے پر لیں۔ اس عرب نے کہا: میں تمہیں عیر اور احد کی پہاڑیوں پر لے جاؤں گا۔ انہوں نے کہا: جب وہاں پہنچو تو ہمیں بتا دینا۔ جب وہ مدینہ پہنچے تو عرب نے کہا: عیر اور احد کی درمیانی جگہ یہی ہے۔ یہ سن کریہودی سواریوں سے اترپڑے اور بولے ہم نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔ اب ہمیں تمہاری سواریوں کی ضرورت نہیں رہی۔ تم جہاں چاہو جا سکتے ہو۔ پھر انہوں نے فدک اور خیبر میں مقیم اپنے افراد کو اطلاع دی کہ ہم نے مقام ہجرت تلاش کر لیا ہے، تم بھی یہاں آ جاؤ۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ ہم یہاں پر بس گئے ہیں۔ گھر بار اور مال و دولت کا اہتمام کر چکے ہیں۔ مدینہ یہاں سے زیادہ دور بھی نہیں ہے۔ جب وہ وقت آیا تو ہم بھی تمہارے پاس آ جائیں گے۔ بہرکیف یہ لوگ مدینہ میں مستقل طور پر آباد ہو گئے۔ یہ خبرتبع نامی بادشاہ تک پہنچی تو اس نے حملہ کر دیا۔ یہودی قلعہ بند ہو گئے۔ اس نے محاصرہ کر لیا لیکن بعد میں امان دے دی۔ جب یہ بادشاہ کے پاس آئے تو اس نے کہا: مجھے یہ جگہ پسند آگئی ہے۔ میں یہاں تمہارے پاس رہنا چاہتا ہوں۔ یہودیوں نے جواب میں کہا: ہرگز نہیں۔ یہ جگہ ایک پیغمبر (ص) کا مقام ہجرت ہے۔ ان کے علاوہ کوئی شخص یہاں قیام نہیں کر سکتا۔ بادشاہ نے کہا :میں اپنے خاندان کے کچھ افرادچھوڑے جا رہا ہوں تاکہ جب وہ رسول (ص) آئیں تو یہ ان کی مدد کریں۔ چنانچہ اس نے دو قبیلوں اوس اور خزرج کو یہاں ٹھہرایا۔ جب ان قبائل کی آبادی بڑھ گئی تو انہوں نے یہودیوں کے مال و دولت پر تجاوز کرنا شروع کر دیا۔ یہودی ان سے کہتے تھے کہ جب محمد (ص) مبعوث ہوں گے تو تمہیں ہمارے علاقے سے نکال باہر کریں گے۔ لیکن جب پیغمبر اکرم (ص) مبعوث ہوئے تو اوس و خزرج ان پر ایمان لے آئے اور انصار مشہور ہوئے، جب کہ یہودیوں نے کفر اختیار کیا۔ چنانچہ وَ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ یَسۡتَفۡتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡ سے اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: پہلے یہ لوگ کفار پر فتح کی امید رکھتے تھے، لیکن جب ان کے پاس وہ آگیا جسے وہ خوب پہچانتے تھے تو اس کے منکر ہو گئے۔ {المیزان ۱ : ۲۲۳}

اہم نکات

۱۔ انتظار قائم (عجل ) کے لیے عصیان سے بچنا ضروری ہے، ورنہ ظہور منتظر (عجل )کے بعد گنہگار فیض سے محروم رہ جائیں گے۔

۲۔ اکثریت حق کی دلیل نہیں ہے: فَقَلِیۡلًا مَّا یُؤۡمِنُوۡنَ ۔۔۔۔

۳۔ حق پرستی کا اعزاز ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔ حق پرست افراد کی کمی کو ئی عیب نہیں ہے۔

تحقیق مزید: الکافی ۸ : ۳۰۸۔ ۳۱۰۔ تفسیر العیاشی ۱ : ۴۹


آیات 88 - 89