آیات 85 - 86
 

ثُمَّ اَنۡتُمۡ ہٰۤـؤُلَآءِ تَقۡتُلُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ وَ تُخۡرِجُوۡنَ فَرِیۡقًا مِّنۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِہِمۡ ۫ تَظٰہَرُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ ؕ وَ اِنۡ یَّاۡتُوۡکُمۡ اُسٰرٰی تُفٰدُوۡہُمۡ وَ ہُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیۡکُمۡ اِخۡرَاجُہُمۡ ؕ اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۸۵﴾

۸۵۔ پھر تم ہی وہ لوگ ہو جو اپنے افراد کو قتل کرتے ہو اور اپنوں میں سے ایک گروہ کو ان کی بستیوں سے نکالتے ہو، پھر گناہ اور ظلم کر کے ان کے دشمنوں کی مدد کرتے ہو اور اگر وہ قید ہو کر تمہارے پاس آتے ہیں تو تم فدیہ دے کر انہیں چھڑا لیتے ہو، حالانکہ انہیں نکالنا ہی تمہارے لیے سرے سے حرام تھا، کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر ایمان لاتے ہو اور کچھ حصے سے کفر اختیار کرتے ہو؟ پس تم میں سے جو ایسا کرے دنیاوی زندگی میں اس کی سزا رسوائی کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے؟ اور آخرت میں (ایسے لوگ) سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا بِالۡاٰخِرَۃِ ۫ فَلَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمُ الۡعَذَابُ وَ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ﴿٪۸۶﴾

۸۶۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کے بدلے میں دنیاوی زندگی خرید لی ہے پس ان کے عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہو گی اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی۔

تشریح کلمات

دِیَار:

(د و ر) دار کی جمع ہے۔ محل سکونت۔ بستی۔

تَظٰہَرُوۡنَ :

(ظ ہ ر) پشتیبانی، تعاون، مدد۔

اِثۡم:

(ء ث م) گناہ۔

الۡعُدۡوَانِ:

(ع د و) زیادتی۔ ظلم پیشہ ہونا۔

اُسٰرٰی:

(س ر ی) اسیر کی جمع۔ اس کے علاوہ اسریٰ بھی جمع ہے۔ اسی لیے ایک قرائت کی رو سے اسریٰ پڑھا گیا ہے۔ اگر قیدی بیڑیوں میں بند ہوں تو اساری ورنہ اسریٰ کہتے ہیں۔

تُفٰدُوۡہُمۡ:

(ف د ی) تفادی۔ فدیہ ادا کرنا۔ فدیہ وہ مال ہے جو قیدی کو چھڑانے کے لیے ادا کیا جاتا ہے۔

خِزۡیٌ:

(خ ز ی) رسوائی۔

تفسیر آیات

ثُمَّ اَنۡتُمۡ ہٰۤـؤُلَآءِ تَقۡتُلُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ اس عہدو پیمان کے باوجودیہ لوگ اپنے ہی افراد کا خون بہاتے، انہیں بے گھر کرتے اوراس غیر انسانی عمل کے لیے غیروں سے مدد بھی حاصل کرتے تھے۔

عہد نبوی کے معاصر یہودی، دو بڑے قبائل بنی نضیراور بنی قریظہ میں بٹے ہوئے تھے۔ دوسری طرف اوس اور خزرج مشرکین کے دو بڑے قبائل تھے۔ یہودی جب آپس میں لڑتے تو مشرکین سے مدد لیتے تھے اور جب کوئی یہودی دوسرے فریق کے اتحادی مشرکین کا اسیر بن جاتا تو یہ فدیہ دے کر اسے چھڑا لیتے تھے۔

اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ کیا تم کتاب خدا کے کچھ حصے پر ایمان لاتے ہو اور کچھ حصے سے کفر اختیار کرتے ہو ؟

یعنی تم قتل و غارت اور اپنوں کو بے گھر کر تے وقت احکام خدا کو پس پشت ڈال دیتے ہو، لیکن جب فدیہ دے کر اسیروں کو چھڑانے کی نوبت آتی ہے تو حکم خدا کا حوالہ دیتے ہو۔ یہ تبعیض فی الایمان اور تضاد فی العمل کتنی غیر معقول روش ہے۔ یہ روش ایک حدتک مسلمانوں میں بھی سرایت کر چکی ہے کہ بعض مقامات پر قرآن کے صریح احکام کی خلاف ورزی کرنے میں تامل نہیں کرتے اور بعض کم اہمیت کے حامل مقامات پر قرآن کا حوالہ دیتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ تَبْعِیْضٌ فِی الْاِیْمَانِ اور تَضَادٌ فِی الْعَمَلْ باہمی جنگ و جدل، دوسروں کی حق تلفی، میثاق خداوندی سے انحراف، آخرکار دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں سخت ترین عذاب کا سبب بنتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ آسمانی ادیان کی بنیادی تعلیمات یکساں اور ہم آہنگ ہیں۔

۲۔ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حسن گفتار کو اپنا شیوہ بنا لیں: وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْـنًا ۔ مسلمان ہو کر دوسرے مسلمانوں کو گالی گلوچ دینا قرآن کی صریح مخالفت ہے۔

۳۔ والدین کے علاوہ قریب ترین رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں پر احسان کرنا بھی ایمان کا حصہ ہے۔

۴۔ اللہ سے عہد وپیمان کے باوجود اکثر اصحاب موسیٰ (ع) نے عہد خداوندی کو پامال کیا۔

۵۔ ایمان قابل تفکیک نہیں ہے: اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ ۔۔۔۔

۶۔ رواداری کا فقدان دنیاوی ذلت کا موجب بنتا ہے: خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۔۔۔۔

۷۔ آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے کا عذاب قابل تخفیف نہیں ہے: فَلَا یُخَفَّفُ ۔۔۔۔


آیات 85 - 86